چودھواں ایونٹ
رنگ و بوئے باراں (رومانی افسانے )
افسانہ نمبر : 02
کشمیر ٹائمز
محمد عمران
سحر کے سات بجے تھے اور فضا میں ہر طرف جیسے سحر ہی سحر تھا، نیلا سحر.... نیلا وسیع آسمان جیسے سفید بادلوں کا سافہ باندھے نیلی عریض جھیل سے دامن گیر ہونے کو بے قرار ہو رہا تھا، ایسے بے قرار جیسے دونوں کا آج صبح ہی نکاح ہوا ہو.... تبھی تو دونوں ہم رنگ تھے.... نیلے نیلے.... اور دونوں کے درمیان ہلکے سرمئی دراز پہاڑ جیسے حیا تھے.... وہ سرمئی کوہسار قطار اندر قطار دونوں کے درمیان حیا کی طرح ہی تو تھے کہ آسمان اور جھیل کے محرم ہوتے ہوئے بھی انہیں ملنے ہی نہیں دے رہے تھے.... کتنے قریب ہو کے بھی دور تھے دونوں.... اور سفید فاختے جو آسمانوں میں محو پرواز تھے؛ جیسے چند باراتی آئے ہوں اور سفید بطخیں نیلاب میں تیرتیں جیسے دلہن کی سہیلیاں....!!!!
ہوگی کوئی مصلحت جو الکتاب میں صرف اُن ہی نہروں کا ذکر ہے جو زیرِ زمین بہتی ہیں اور ڈل جھیل کی نیلی لہریں جن پر اکثر برف اور نظر دونوں جم جاتی ہیں، کو نظر انداز کر دیا۔ جادو اور موسیقی کو منع فرمایا پھر نجانے خدا نے ناخدا کے چپّؤں اور لہروں کے سنگم کی صوت میں کیا راگنی بھر دی کہ جادو ہو ہی جاتا ہے؛ نیلا جادو....
وہیں قریب ہی کسی کشتی میں کوئی ملاح......
"رِند پوش مال گرندنے درائے لولو......."
(خوش آمدید ائے موسمِ بہار....)
گا رہا تھا......
بیک گراؤنڈ میں طائرانِ طاعت گزار کی چوں چوں کو کو کوہو کوہو کے ترانے اور یہاں چنار اور اخروٹ کے درخت کی لکڑیوں سے بنے چپّؤں کی چھر چھر فر فر جھرجھر کی رِدم، پھر اس پر سرد و سرمست ہواوں کا سر تا سر، سر سر کرتے جانا، ہر طرف جیسے موسیقی ہی موسیق...... سُر ہی سُر......
ایک منٹ...!!!!
قدرتی مناظر پر سات سروں کی کوئی پابندی نہیں لگائی...!!!
وااہ....!!!!
بہار کے ہوٹوں پے ترانہء نشاط اور نغمہء نازِ صنوبر سجا دیا، وہیں خزاں کے لبوں پر فغانِ فراق اور نالہ برگِ خشک رکھ دیا...... موسیقی آبشاروں میں، نہروں میں جھرنوں میں، اور کرنوں میں بھی، کرنوں میں....!!!! ہاں اور نہیں تو کیا، بادلوں سے چھن کے آتی ہلکی باریک نئی نویلی کرنیں کسی گِٹار کے تاروں کی مانند ہی تو لگتی ہیں، جنہیں کوئی بس چھو لے اور روح میں سات سروں کی برسات ہونے لگ جائے۔
اور ان ہی نہاں عیاں سی راگنیوں کی بوچھار میں وہ دلکش دوشیزہ ڈل لیک کے سرد پانی پر تیرتے شکارے میں سوار، دو کتابیں اپنے سینے سے چمٹائے کالج جا رہی تھی، اُن میں ایک تو اقبال کی بالِ جبریل اور ایک مختصر سی فارسی ٹو ہندی لغت، اور ایک بیاض بھی تھی، ایک بیاض اُسکے پرس میں رکھی تھی۔ وہ علامہ کے تقویمِ تغزل پر ریسرچ کر رہی تھی۔ پر یونیورسٹی سے قبل اُسے شنکر اچاریہ جانا تھا، اس نے منت جو مانی تھی کہ کالج کے پہلے روز اگر وادی میں کرفیو نہ ہوا تو مندر کے خزانے میں ایک سو سات روپے کا نذرانہ پیش کرے گی.... اسی لیے اس نے سفر سے پہلے ہی چُھٹّے پیسے اس اخبار فروش سے لے لیے تھے، جس کی کشتی بھی جھیل ہی میں ذرا دوری پر گشت کر رہی تھی۔
اور نیلے رنگوں کا سلسلہ ابھی ختم نہیں ہوا تھا؛ اس کا نام نیلوفر تھا، اور اس کی آنکھیں بھی نیلی تھیں، نیلی جھیل سی گہری، دو نیلی چوڑیاں اُس کی نازک کلائیوں میں اور اس کے ہونٹ گلاب، رخسار کشمیری سیب کے مثل؛ ہلکے گلابی۔ آج اس نے سفید شلوار قمیض کو یہ اجازت دی تھی کہ اس کے نو عمر ا ن چُھوئے جسم سے رشتہ قائم کرے اور اورینج دوپٹے کو یہ حکم تھا کہ اس کی خوبصورتی میں اضافہ کرتا رہے اور ساتھ ہی ساتھ گردن سینے اور کانوں کو ٹھنڈی ٹھنڈی ہواؤں سے حفاظت کا ذمہ بھی اُسے ہی سونپا گیا تھا۔
نیلوفر کے عین مخالف سمت سے آفتاب اپنے شکارے کو ازخود کھیتا، درگاہ حضرت بل کی جانب رواں تھا، اسے آج مسجد میں سجدہِ شکر ادا کرنا تھا کہ اُس نے میڈیکل کالج کے فرسٹ ایئر میں نمایاں کامیابی جو حاصل کر لی تھی۔ وہ بھی سفید کرتا، اس پر لیدر کا براؤن اوپن جیکٹ، اور بلو جینس پہنے ہوئے تھا۔ اور اس کے شکارے میں سبز پودے تھے، وہ شکارہ کسی کیاری فروش کا تھا۔
اور پھر یکایک وہ لمحہء پُر کیف آیا کہ جس میں دو نا آشنا نظروں کا دلکش تصادم ہوا، وہ ساعتِ سعیدہ کہ جس میں نیلو فر کی نیلی جھیل اور نورِ چشمِ آفتاب ایک خط میں واقع ہوئے، دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور وہ احساس کہ جسے عشق کہیے، يا عشقِ نگاہِ اول کہیئے، وہ کیفیت کہ جسے قدیم یونان نے لو ائٹ فسٹ سائٹ کا نام دیا تھا...... وہی کیفیت کے جس میں کچھ پل کے لیے پلکیں جھپکنے سے قاصر ہو جایا کرتی ہیں، وہ شریعت کہ جس میں چوری گناہ کبیرہ سے بھی بڑا جرم ہو جاتا ہے؛ جہاں دو اجنبیوں کو آنکھ تک چرانے کی اجازت نہیں ہوتی؛ کہ وہ مجبور ہوتے ہیں قوانینِ دل کے آگے، اور دل کے قوانین بھی کتنے عجیب ہوتے ہیں ناں، کہ دو انجانے لوگ چوری بھی نہیں کرتے، پھر بھی گرفتار ہو جاتے ہیں.... ایک دوسرے کے عشق میں....!!!! وہ زنجیرِ زرّین کہ جس میں پڑنے کے بعد پھر راہِ فرار نہیں ملتی..... وہ پہلی نظر کہ جس میں محبت ہو جاتی ہے، وہ پہلی نظر کہ جس کے بعد صورتِ قرار نہیں ملتی، وہ پہلی نظر کہ جس کے بعد نیند رخصت ہو جاتی ہے وہی پہلی نظر جو نیلوفر اور آفتاب نے ملائی تھی اور اُنھیں بھی بس.... محبت ہو گئی تھی۔ دونوں شکارے ایک دوسرے کے قریب تر ہوئے جا رہے تھے، فاصلے صفر کی طرف سفر کر رہے تھے پر نگاہیں تھیں کہ چار ہوئی جا رہی تھیں؛ وہ نظریں نیلوفر کے لیے چار دھام سی پوِتر....!!!! آفتاب کے نزدیک ایسی پاکیزہ کہ وہ چار ساعتیں کہ جب وقت ٹھہر گیا تھا.... اور محبت کے حروف بھی تو چار ہوتے ہیں....!!!!
یہاں نیلو فر کا دل زوروں سے دھڑک رہا تھا اور اس کے چہرے پر جیسے نئی نویلی دلہن والی مسرت تھی، نکاح والی مسرت، حیا والی مسرت، محبت والی مسرت....!!!! اور اُسکے رخسار مارے خوشی کے سرخ ہوئے جا رہے تھے، اس کی سانسوں کی رفتار تیز ہو چکی تھی، اور کیوں نہ ہوتی پچھلے کئی سیکنڈس سے وہ اپنی ہلکی نازک پلکوں پر کتنا وزن اٹھائے ہوئے تھی.... حیا کا وزن.... وہ لڑکا وہاں سے اُسے بس دیکھے جا رہا تھا، اور یہاں یہ بے بس، نظریں جھکانے سے قاصر....!!!! اس کا معصوم سا دل بہت تیز دھڑک رہا تھا، کیوں نہ دھڑکتا، آج اس نے طوفان کا سامنا جو کیا، ہاں طوفان ہی، محبت کسی طوفان کسی موسلا دھار بارش سے کم ہوتی ہے کیا....؟؟؟؟ پہلی ملاقات والی محبت ایک لڑکے کے لئے ضرور نعمت ہوگی، پر اک لڑکی کے لئے کسی قدرتی آفت سے کم نہیں ہوتی، کہ آنچلِ حیا فضائے فرحت میں لہراتا چلا جاتا ہے، اور اسے پلکیں جھکانے تک پے قدرت نہیں ہوتی....!!!!!
اس اجنبی لڑکے کو یوں مسلسل اپنا دیدار کرتے دیکھ بے ساختہ نیلو فر کے مسکراتے لبوں سے بس ایک ہی لفظ نکلا....
" پاگل....!!!! "
وہاں آفتاب کی آنکھوں میں بھی ایک نا معلوم سی حیرانگی تھی، وہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ یہ کیا ماجرا ہے، وہ کیوں اس لڑکی کو بس دیکھتا رہ گیا....؟ وہ کیوں اتنی اچھی لگی اُسے....؟ پر وہ بھی تو بلا ناغہ تیر چلائے جا رہی ہے.... اور ہر تیر دل کے پار.... دل زخمی ہو کے بھی شاد، اور ہر زخم جیسے گلِ لالہ، اور معشوقِ گلِ اندام کی تصویر اس کی آنکھوں میں تھی، اور اس تصویر کا مصور بھی ایسا مشاق کہ پھول کے ماتھے پر شبنم کی بوندیں تک بنا دی، سرد فضا کے باوجود نیلو کے ماتھے پر پسینے کے موتی ایسے چمک رہے تھے جیسے اشکِ صبح گاہی۔ اور پھولوں کے لب ساری شب نمی کو جیسے اسی لیے تو جمع کرتے رہتے ہیں کہ صبح آفتاب کی ایک نظر اُن پر پڑے اور انہیں درخشاں کردے، اور اس وقت آفتاب کے ہوٹوں سے بھی بس ایک ہی لفظ ادا ہوا....
" بیوٹی فل.....!!!! "
کوئی ملاح، کوئی گل فروش، کوئی پھل فروش تو کوئی چائے فروش؛ خدا تو پانی پر بھی روزگار فراہم کرنے پر قادر ہے، تو وہ محبت میں کیسے کسی کو بے روزگار دیکھ سکتا تھا؛ وہاں پلکوں نے کام چھوڑ دیا تو کیا ہوا، نیلوفر کے ہوٹوں کو جیسے ایک نیا کام مل گیا تھا، مسکرانے کا کام، وہ مسلسل مسکرائے جا رہی تھی، حالانکہ وہ معصوم تھی نادان تھی، اسے کیا پتہ تھا کسی کو دیکھ محبت سے مسکرا دینا مسکراہٹ کی تبلیغ ہے۔ تب ہی ایک ہلکی سی تبسم نے آفتاب کے لبوں پر بھی قیام کر لیا تھا، گویا لبوں نے لبوں کی درخواست قبول کر لی ہو۔ آفتاب کے نصف حیران چہرے پر آثارِ تبسّم دیکھ نیلو نے اپنا چہرہ ذرا سا پھیرتے ہوئے، اپنی مسکان کو سنبھالے ہوئے، نگاہوں کا مصافحہ توڑے بغیر، آفتاب کو ترچھی نظروں سے دیکھتے دیکھتے پھر سے ایک کومپلیمیںنٹ دیا....
" ایڈیٹ....!!!! "
آہستہ آہستہ دونوں شکارے نہایت قریب آ گئے، سارے فاصلے عنقا بن کر محوِ پرواز ہوئے، اُن کی فریفتہ و فرحین آنکھیں بھی نہایت نزدیک آ گئیں تھیں، نہایت نزدیک.... اتنی نزدیک جیسے نرگس اور نکہت، اتنی نزدیک جیسے ندا اور نصرت، اتنی نزدیک جیسے نکاح اور نزہت....!!!!
" بے شرم....!!!! "
پر دیدار یار والے لمحات بھی تو نور کے سے ہوا کرتے ہیں؛ نور کی رفتار سے گزر جاتے ہیں، نیلو اور آفتاب نہایت پاس آئے اور اک آن میں جیسے صدیاں گزر گئیں، نجانے کب ملاقات کا وقت ختم ہوا اور دونوں شکارے بالکل بازو سے گزر گئے....
پلکوں کو جھپکنے کی اجازت ملی کہ نظروں کو ملنے سے رخصت ملی، دونوں کو جیسے کہ راحت سی مل گئی کہ آہِ سرد بھرنے کی فرصت ملی اور دونوں عشاق ایک دوسرے کی جانب پیٹھ کیے خاموشی سے جدا ہونے لگے۔ نیلوفر کتابوں کو پوری طاقت سے اپنے سینے سے چمٹائے ہوئے، گھبرا بھی رہی تھی، خوش بھی تھی، اور آف کورس، مسکرا بھی رہی تھی....!!!! اور اس کے دل میں بس ایک ہی سوال آ رہا تھا کہ کیا پیچھے سے وہ لڑکا اُسے اب بھی مڑ کے دیکھ رہا ہوگا....؟؟؟؟
اسے جاننا تھا, اسے دیکھنا تھا، اسے پلٹنا تھا.... پر حیا، خوف، اور خودی، تینوں اسے روک رہے تھے کہ وہ ایک لڑکی ہے، ہرگز نہ مڑے، کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ پلٹے اور وہ اسے نہ دیکھ رہا ہو تو....!!!! حسن کی سیلف رِسپیکٹ عشق کی لا پرواہی کے پتھر سے چور چور نہ ہو جائے گی....؟؟؟؟ پر دل تھا کہ بکھر جانے کو بھی تیار تھا.... کہے جا رہا تھا کہ نیلو پلیز....!!! پلیز بس ایک بار ناں.....!!!
اور نیلو.....
" ہائے میں کیا کروں....؟؟؟؟ "
دل کو دل سے راہ جو ہوتی ہے، وہاں آفتاب بھی اسی کشمکش میں یہی سوچ رہا تھا....
" یار وہ لڑکی ہے، وہ کیوں مڑے گی....؟؟؟؟ اور وہ نہیں مڑے گی تو میں بھی کیوں دیکھوں....؟؟؟؟ "
پر وہ عشق تھا ناں ؛ کوششِ دیدارِ حسن کے سوا کوئی چارہ ہی کہاں تھا اس کے پاس....؟؟؟؟ اور غالب نے نہیں کہا ہے؛ درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا....!!!! اور خودی کی انتہا بھی تو بےخودی ہوتی ہے، اور بے خودی سے فنا کا سفر شروع ہوتا ہے، عشق میں فنا کا سفر، عشق میں ہر شے فنا ہوجاتی ہے، خوف بھی فنا ہو جاتا ہے، حیا بھی فنا ہو جاتی ہے....!!!!
پھر یوں ہوا کہ دونوں ہم کیف ہم عالم ایک ہی ساعت میں یک لخت پیچھے مڑے اور جیسے نِگاہ نے نِگاہ سے نِباہ کر لی ہو.....!!!! اپنے معشوق کے وجود کو دونوں نے دوبارہ اپنی آنکھوں میں بسا لیا۔۔۔!!!!
" او دلبرو و و و و و و و و.........
او دلبرو و و و و و و و و و.........
روشے والا میانی دلبرو و و......
پوشن بہارآں یور ولو و و....... "
( آجا اے میرے محبوب
کہ موسمِ بہار آ گیا ہے )
ہاں محبت موسمِ بہار کے جیسی ہی تو ہوتی ہے.... کہ یہاں کسی کو محبت ہوئی نہیں کہ وہاں نشاط باغ سے نسیم باغ تک سبزسبز گھاس کی قالینیں بچھ جاتی ہیں اور اہلِ عشق کے لیے خوش آمدید خوش آمدید کے نغمے شروع کر دیتی ہیں اور مغل باغ سے لے کر شالیمار باغ تک رنگین فووارے جن سے ٹھنڈی ٹھنڈی بوچھاریں جیسے ویلکم سونگ پر رقص کرنے لگتی ہیں۔ وہیں چار چنار اور چشمِ شاہی سے ٹیولپ گارڈن تک رنگ برنگے پھولوں کی سیج سی سج جاتی ہے، جن میں نیلے پیلے سرخ گلابی سنبل کے پھول، گہرے گلابی سدا بہار اور جامنی رنگ کے کشمیری مزار مند کے پھول، گلِ یاسمین جنہیں یہاں ' ہی پوش' کہا جاتا ہے، اسی کے اطراف سزا پوش اور پامپوش کے پھول، اور ییلو سن فلاور اور میری گولڈ جو اس خطے میں گلِ جعفر کہلاتے ہیں، سب کے سب جیسے محبت کرنے والوں کو مرحبا مرحبا کہنے کے لیے ہی تخلیق کیے گئے ہوں، سارے جیسے بس اُن کی زیارت کے اشتیاق میں کھل اٹھے ہوں، سب کے سب جیسے جذبہء خدمتِ اہلِ محبت میں سرشار ہو گئے ہوں، سارے کے سارے جیسے اشتیاقِ استقبالِ اصحابِ عشق میں باغ باغ ہو رہے ہوں۔
اور وہ حُسن خیز شہر اور بھی عشق پرور ہوا جا رہا تھا کہ دونوں کشتیاں مسلسل دور ہو رہی تھیں اور وہ دونوں ہم داستاں مسلسل جدا ہو رہے تھے پر خوش تھے کہ ایک دوسرے کو دیکھے جا رہے تھے، وہ خوش تھے کہ آج فرشِ فراق پر پہلا قدم رکھنے کے لطف سے وہ واقف ہوئے تھے، وہ خوش تھے کہ آج محبت کی وادی میں اُن کا پہلا دن تھا اور وہ وادی بہت دلکش تھی، وہ اسی وادی میں کھوئے رہنا چاہتے تھے، وہ جان گئے تھے انھیں محبت ہو گئی ہے، نیلے رنگ کے پانیوں پر، شاداب سرد ہواؤں کی میٹھی چبھن، دور زمین سے آتی ہلکی ہلکی چنار کے درختوں، گُل پام پوش اور ٹیولپ کی کلیوں کی خوشبوؤں، اور موسموں کی موسیقی کی شہادت میں اُن کے غیر عقد خواندہ دلوں نے ایک دوسرے کو قبول کر لیا تھا۔
اور اس روز جب وہ اصحابِ جنّتِ کشمیر، خوشیِ محبت میں مشغول تھے، وہیں کہیں سے بہتا ہوا ایک خاکی زردی مائل رنگ کا نیوز پیپر ؛ کشمیر ٹائمز شاید.... لہروں پر تیرتے ہوئے نیلو فر اور آفتاب کی کشتیوں کے درمیان سے گزر رہا تھا....
دہشت....
بندوقیں....
بلاسٹ....
لاشیں....
فائرنگ....
چیخیں....
ملیٹنٹس....
ہاسٹیج....
گم شدہ لوگ....
نصف بیوہ عورتیں....
بی ایس ایف....
ایس ٹی ایف....
ہجرت....
پاکسان....
پراکسی وار....
کاؤنٹر اٹیک....
پی او کے....
فتواے موت....
پنجابی مسلمز.....
ہیومن رائٹس....
جلسے....
نعرے....
لاٹھی چارج....
کرفیو....
آرمی....
آبرو ریزی....
قتل....
جہاد....
آزادی....
بارود....
پیٹرولنگ....
ہائے الرٹ....
اسلحہ....
مشین گن....
آرٹیکل 370....
فائرنگ....
مسجد....
پنڈت.....
کانفلکٹ....
سٹون پیلٹنگ....
ماب لنچنگ....
خون آلود چہرے....
سوسائیڈ بومبرس....
دھارا ایک سو چوالیس....
کومبنگ آپریشن....
انکاونٹر....
خونریزیاں....
لاوارث لاش کی بدبو....
سڑک پر پڑے گوشت کے چیتھڑے........
جیسے سیاہ الفاظ کشمیر ٹائمز کے صفحات پر سانسیں لے رہے تھے۔
ختم شدہ
تبصرے اور تاثرات
رخسانہ نازنین
کشمیر کی حسین وادیوں اور ڈل جھیل کے شکاروں میں پروان چڑھتی محبت کی دلکش فضاؤں میں کھوئے قاری کو یکایک خوابوں کی دنیا سے نکال کر حقیقت سے روبرو کروایا گیا۔ اللہ کرےان حسین نظاروں میں صرف محبت ہی محبت ہو۔ نہ دہشت، نہ بندوق، نہ بلاسٹ، نہ کرفیو نہ۔۔۔!
ڈاکٹر ریاض توحیدی
محمد عمران صاحب کے کشمیر ٹائمز کے لئے علامہ اقبال کے یہ دلگداز اشعار۔۔۔ جو آج بھی کشمیر کی صورتحال پر صادق آتے ہیں۔۔۔
آج وہ کشمير ہے محکوم و مجبور و فقير
کل جسے اہل نظر کہتے تھے ايران صغير
سينۂ افلاک سے اٹھتی ہے آہ سوز ناک
مرد حق ہوتا ہے جب مرعوب سلطان و امير
کہہ رہا ہے داستاں بيدردی ايام کی
کوہ کے دامن ميں وہ غم خانۂ دہقان پير
آہ! يہ قوم نجيب و چرب دست و تر دماغ
ہے کہاں روز مکافات اے خدائے دير گير؟
۔۔۔
افسانے کی منظر نگاری' داستان محبت اور آخری حصہ۔۔۔ جوکہ احساسات کی ترجمانی کرتا ہے۔۔۔
خیر۔۔۔ افسانے کے لئے
واہ۔۔۔ اہ۔۔۔
ریحان کوثر
کیا ہی عمدہ افسانہ ہے....
بالکل!
کشمیر جیسا خوبصورت!
اور
کشمیر ٹائمز جیسا زخمی!
ڈل جھیل جیسی زبان و بیان!
افسانے کا راوی بھی خوب کمال ہے...
افسانہ نگار ممبئی کا
لیکن!
راوی بالکل کشمیریوں کی طرح ہے....
اس شاندار اور لاجواب رومانی افسانے کے لیے محمد عمران صاحب کو مبارکباد 🌹
اکبر عابد
خوب صورت افسانہ پڑھ کردل کش فضاوں کھو گیا اس رومانی افسانے کے لئے افسانہ نگار کو بہت بہت مبارکباد۔۔۔
راجہ یوسف
آفتاب اور نیلوفر کے رومان سے زیادہ افسانے کا اسلوب بڑا رومانٹک ہے. منظر نگاری کا بہاؤ جہلم سے تیز ہے... خوبصورت افسانہ... داااد اور مبارکباد
غیاث الرحمٰن
بھرپور رومانی فضا میں ڈوبا ھوا, نہایت لطیف اور دلکش افسانہ ھے۔ کشمیر کا نام سنتے ہی وہاں کی سرزمین پر بکھری خوبصورتی نظروں میں سماجاتی ھے۔ ان حسین وادیوں, کہساروں, جھیلوں , جھرنوں,اور شفاف تیزگام دریاؤں میں گم ھو جانے کو جی چاھتا ھے۔۔۔ اس خوبصورت افسانے کی پیشکش کے لیے افسانہ نگار اور ایڈمن کو دلی مبارکباد۔
ڈاکٹر نعیمہ جعفری پاشا
دل پذیر و دل گیر
دل کش و دل سوز
دل آویز و دل رمیدہ۔
خوبصورت زبان و بیان میں گندھا حسین مناظر سے سجا عشق کی خوشبووں سے معتر
حالات کی ستم کاری سے مجروح
سحر انگیز افسانے کے لیے محمد عمران کو دلی مبارکباد و نیک خواہشات۔
معین الدین عثمانی
"کشمیر ٹایمز" 'محمد عمران' کا ایک ایسا افسانہ ہے جو ایک طرف بوسیدہ اخبار کے ذریعہ موجودہ حالات کی مرثیہ خوانی کر تا ہے تو دوسری جانب جنت نشان ارض کشمیر کے سینے میں صدیوں سے پوشیدہ محبت کی داستان کو خوب صورت انداز میں بیان کرتاہے۔یوں لگتا ہے جیسے زندگی کا شکارہ دو راہوں کے درمیان بھٹک کر ہچکولے کھارہا ہے۔اور محبت کی داستان اخبار کی شہ سرخیوں میں مدغم ہوکر جھیل کے بہتے پانی میں تحلیل ہوتی جارہی ہے۔جسے اب صرف محسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔
خوبصورت انداز میں بیان کیا گیا خوبصورت افسانہ مبارکباد کا مستحق ہے۔ دلی مبارکباد۔
نگار عظیم
"کشمیر ٹائمز" کیا خوبصورت منظر نگاری کی ہے بیانیہ میں زبردست بہاؤ ہے۔ عشق پیچاں کے دلبرانہ ناز و انداز کیا کہنے۔ بس جیسے جیسے محبت آگے بڑھ رہی تھی میرا دل لرز رہا تھا کہ کہیں سے گولیاں چلنے ہی والی ہیں اور پھر جانے کون لپیٹے میں آئے۔ شکر ہوا کشمیر ٹائمز پر لکھی خونریز داستانوں کی سرخی پر افسانے کا اختتام ہوا۔ بہت خوب محمد عمران صاحب اس خوبصورت تخلیق کے لیے بہت بہت مبارک دعائیں۔
نصرت شمسی
الفاظ کی جادو گری اور خوبصورت منظر کشی والا افسانہ جس میں کہانی ذرا کم لگی۔۔ذرا دو چار جواں خواب اور ہوتے پھر اخبار ولن بنتا۔۔
اچھا لگا مبارک باد
فردوس انجم
کشمیر کا نام سنتے ہی وہاں کی سرزمین پر بکھری خوبصورتی آنکھوں میں سما جاتی ہے۔ وہاں کی حسین اور دلکش وادیاں، جھرنوں کے پر لطف راگ،بلند و بالا برفیلے کہسار اور درختوں پر جھولتے ہوئے پرندے، جھیلوں میں لہراتے شکارے، صاف و شفاف دریاں، دل فریب فضاء۔۔۔کشمیر کےان حسین نظاروں کو دیکھ کر ہی شاید کہاں گیا کہ۔۔۔
فردوس بریں گر زمیں است
ہمیں است ہمیں است ہمیں است
افسانہ سحر اس لفظ سے شروع ہوا اور اول تا آخر اسی لفظ نے مجھے باندھے رکھا۔ ہر لفظ دل میں اترنے والا، محسوس ہوا جیسے ڈل جھیل کے شکارے میں، میں خود ان حسین اور دل فریب نظاروں کا لطف لے رہی ہوں۔ اور ساتھ ہی آفتاب اور نیلوفر کی ایک جھلک میں پروان چڑھتی محبت کو بھی دیکھ رہی ہوں۔۔۔ایک فن پارے کی کامیابی یہی ہے کہ قاری اس فن پارے میں کھو جائے اور خود کو اس کا حصہ سمجھ لیں۔۔۔زبان و بیان ڈل جھیل کی نیلگوں نہروں کی مانند بہتا ہوا۔ جس کا مترنم بہاؤ پڑھنے والے پر جادو کرتا چلا جاے۔۔۔
محمد عمران صاحب نے بہت ہی عمدگی سے افسانہ کی بنت کو بنا ہے۔ جہاں انھوں نے کشمیر کے حسن کو بیان کیا ہے۔ اور ان حسین نظاروں میں دو دلوں کی معصوم پروان چڑھتی محبت، جس کے اختتام پر ان دو دلوں میں محبت اپنی کونپلیں قائم تو کر چکی ہے۔ لیکن وہی وہاں کے دہشت ذدہ ماحول سے قاری کے ذہن و دل پر سکتہ طاری کرنے میں بھی کامیاب ہوئے ہیں۔رومان سے پر اور عشق کی خوشبو سے معطرچند اقتباسات ملاحظہ فرمائیں۔۔۔
موسیقی آبشاروں میں، نہروں میں جھرنوں میں، اور کرنوں میں بھی، کرنوں میں۔۔۔ہاں اور نہیں تو کیا، بادلوں سے چھن کے آتی ہلکی باریک نئی نویلی کرنیں کسی گٹار کے تاروں کی مانند ہی تو لگتی ہیں، جنھیں کوئی بس جھولے اور روح میں سات سروں کی برسات ہونے لگ جائے۔۔۔
کرنوں میں موسیقی۔۔۔؟ خود ہی سوال کیا گیا۔ اور جواب بھی نہایت ہی دلکش انداز میں دیا گیا۔کرنوں کی موسیقی کے بارے میں میں نے پہلی بار پڑھا۔جو دل کو چھو گیا۔
"اور یکایک وہ لمحۂ پر کیف آیا کہ جس میں دو نا آشنا نظروں کا دلکش تصادم ہوا، وہ ساعت سعیدہ کو جس میں نیلو فر کی نیلی جھیل اور نور چشم آفتاب ایک خط میں واقع ہوئے۔۔۔"
"آہستہ آہستہ دونوں شکارے نہایت قریب آگیے، سارے فاصلے عنقا بن کر محو پرواز ہوئے، ان کی فریفتہ و فرحین آنکھیں بھی نہایت نزدیک آگئیں تھیں، نہایت نذدیک۔۔۔اتنی نزدیک جیسے نرگس اور نکہت، اتنی نزدیک جیسے ندااور نصرت، اتنی نزدیک جیسے نکاح اور نزہت۔۔۔!! "
محمد عمران صاحب کو بہت مبارک باد۔۔۔💐
وحید امام
محمد عمران صاحب کا افسانہ زبان و بیان کی خوبیوں مزین کشمیر کے حالات کا بہترین عکاس افسانہ ہے۔عرض فردوس کو افسانہ نگار نے اپنےجادوئی بیان سےنظروں کے سامنے زندہ کر دیا۔عشق و محبت کی دلنشین داستان اس انداز میں پیش کی کہ حقیقی محسوس ہوتے ہوئے بھی کسی اور ہی دنیا کی داستان معلوم ہو رہی تھی پھر ایسے خوابناک ماحول میں حقیقت کا آئینہ دار بن کر' کشمیر ٹائمز 'نے سارے خوابناک ماحول کو چور کر دیا۔ عشق و محبت کی داستان بھی زندگی کی ایک منطق تھی اور وہاں کے حقیقی حالات کی عکاسی بھی زندگی کے منطق کا پہلو۔۔۔ افسانہ زندگی کے تلخ حقائق کو قارئین کے روبرو پیش کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ اس افسانے کو کشمیر کے حالات کی محض رپورٹ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ اس میں افسانہ نگار نے اپنے قلم کے جوہر دکھانے کے ساتھ کشمیر کے آج کے حالات کی سچی تصویر پیش کی ہے مگر عشق و محبت کی داستان جس اسلوب اور عرق ریزی سے بیان کی گئی ہے کاش وہاں کی خونریزی اور قتل و غارت گری کو بھی فنکارانہ ڈھنگ سے پیش کیا جاتا تو افسانہ 'شاہکار' بن جاتا۔ایک بہترین افسانہ تخلیق کرنے پر افسانہ نگار کو مبارکباد۔
فرخندہ ضمیر
کشمیر کی وادی کی طرح خوبصورت،، پر کیف، ڈل جھیل جیسا سکوت افزا،شبنمی ٹھنڈک کا احساس کراتا سرمستی کے عالم میں ڈوبا محبّت کا فسانہ جس میں کشمیر کے حسین جسم پر رستے ہوئے ناسور بھی ہیں۔
افسانہ نگار کی زبان کی چاشنی نے پرانی داستانوں کی یاد دلادی۔
حسین منظر نگاری سے مزیّن افسانہ۔ اور جب یہ معلوم ہوا کہ عمران صاحب کشمیر سے بلکل مختلف ممبئی میں رہتے ہیں اور اتنی حسین منظر نگاری کی ہے تو انکے قلم کے جادو کے اور بھی معترف ہو گئے۔ لیکن افسانے میں کچھ کسک رہ گئی۔
شہروز خاور
اس ایونٹ کا اعلان سنتے ہی خیال آیا کہ
فلمی فلمی یا شاعرانہ تحریریں زیادہ پڑنے کا موقع ملے گا ــ
شکر ہے کہ
اس کارگہِ شیشہ گری میں ..... "دروازے" جیسا پہلا بہترین افسانہ پیش کیا گیا (مصروفیات کی وجہ سے تبصرہ نہیں کرسکا)
لے سانس بھی آہستہ .....
کہ افسانوں کے مطالعہ کے دوران مناظر کا آنکھوں کے سامنے سے فلم کی طرح گزرنا اور فلمی نا محسوس ہونا بہت ضروری ہوتا ہےــ خاص طور پر رومانی افسانے کی تخلیق "شیشہ گری" ہی تو ہےــ سانس لینے میں ذرا سی چوک ہو تو منہ جل سکتا ہے ــ
رومانی افسانے کے ساتھ ہوتا یہ ہے کہ افسانے پر لفظ "رومان" غالب آجاتا ہےــ عشق و محبت سے سرشار قلم ہر بات اور ہر منظر کو دلکش و دل پزیر بنانے کی انتہا کرنے لگتا ہےــ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ تحریر خوبصورت بن جاتی ہے لیکن افسانہ چھوٹ جاتا ہے ــ
"کشمیر ٹائمز" ایک نہایت خوبصورت تحریر ہےــ یہ تحریر ایک اچھا افسانچہ بھی ہوسکتی ہےــ
پہلے پیراگراف میں لفظ "جیسے" کی تکرار بھلی نہیں معلوم ہوتی ــ
جیسے سحر ہی سحر
جیسے سفید بادلوں کا صافہ
جیسے دونوں کا آج نکاح ہوا ہو
ہلکے سرمئی دراز جیسے حیا تھے
جیسے چند باراتی آئے ہوں
جیسے دلہن کی سہیلیاں ......
عمدہ زبان و بیان کے لیے بہت مبارکباد
افسانہ نگار کے لیے نیک خواہشات
انور مرزا
حسین و جمیل تخلیقی
جملوں سے آراستہ…
قلم کے ساتھ ساتھ
دل پے ھاتھ رکھ کر
لکھا گیا فسانہ ء عشق…
محمد عمران کے لیے
داد و تحسین…مگر…
نیلوفر اور آفتاب سے زیادہ
افسانہ نگار خود اپنے
تخلیقی جملوں کے عشق میں
گرفتار نظر آیا…
شہناز فاطمہ
بھئی واہ کمال کا رومانی (رومانٹک) افسانہ ہے کیا دلکش سحر انگیز تحریر ہے کیا تخیل کی پرواز ہے کیا الفاظ کی بندش ہے کیا بہترین انتخاب الفاظ ہے لگتا ہے حرفوں میں موتی پرو دیے کشمیر کی حسین وادیوں کی سیر تو کراہی دی اور اتنے خوبصورت انداز سے کے قاری سوچنے پر مجبور ہو جائیے کے یہ لکھا کتنی پر فضا مقام پر گیا ہوگا اور کیا کیفیت مصنف رہی ہوگی قلم کی جنبش کے ساتھ عشق کی دل نشیں داستان اس انداز سے پیش کی ہے کہ میں سحر زدہ سی ایسی اسمیں گم ہوگئی کہ سمجھ میں ہی نہیں آیا کہ "آفتاب" ہیرو کا نام ہے بلکہ ایکدم بیخود سی ہو کر اس جادوئی دنیا میں پہنچ گئی آفتاب کی کرنوں کے ساتھ حرفوں کے جگنو چمک رہے تھے اور شبنمی پھوار کی طرح ذہن اس سے معطر ہورہا تھا ایک خواب ناک ماحول سا ذہن پر طاری تھا کہ"کشمیر ٹائیمر" نے ذہن کے پرخچے اڑادیے ملکوتی فضا میں بارو بھر گیا۔
مگر بھئی لکھا لاجواب بے مثال افسانہ ہے محترم جناب محمد عمران صاحب نے الفاظ نہیں جو تعریف کرسکوں ایک ایسا خوب صورت آبشار بہایا لفظوں کا کے قاری کے پاس الفاظ ہی نہیں رہ گئے بہرحال اس بہترین انداز بیاں اور شاہکار افسانے کے لئے بہت داد اور تحسین کے ساتھ نیک خواہشات اور پرخلوص مبارکباد پیش کرتی ہوں گر قبول افتد زہے عزو شرف۔
ذاکر فیضی
لفظوں کی جادوگری دکھاتا بہت خوبصورت افسانہ۔ ہے۔ یہ خاکسار بہت متاثر ہوا۔ بہت بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں۔۔
خواجہ کوثر حیات
افسانہ کشمیر ٹائمز جمالیاتی پہلؤوں کو اجاگر کرتا خوبصورت فن پارہ ہے جس میں خصوصی طور پر لفظیات کا عمدہ استعمال کیا گیا ساتھ ہی تشبہات اور استعاروں سے مزین کرکے، دلکش منظر کشی، آوازوں کی پرلطف دھنوں کو باریکی سے بیان کیا گیا۔ کہانی چونکہ طویل مگر کہانی پن کا مختصر احاطہ کیا ہے۔ اردو زبان کی تمام تر خوبصورتی اور افسانہ نگار کے عمیق مشاہدہ کا عمدہ عکاس افسانہ۔ افسانہ نگار کو پر خلوص مبارک باد۔
فریدہ نثار احمد انصاری
ڈل جھیل کی لہروں میں ڈوبتی تیرتی محبتوں کے نام لکھا افسانہ۔
الفاظ کی جادوگری خوب رہی۔
دو محبت کرنے والے دل ہر تاثر کے بعد ایک ایسا خاموش لفظ ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے جسے صرف وہی سن سکتے تھے۔
اختتام میں کشمیر ٹائمز کے اینٹری کے ساتھ کہانی پن کا موڑ آیا اور حسن و عشق کی داستان ان دکھی لمحوں میں کھو گئی۔
جاوید انصاری
رومانی مزاج کا حامل یہ افسانہ خوبصورت انداز سے پیش کیا گیا۔ کرشن چندر یاد آ گئے۔اردو میں کشمیر کی خوبصورتی مرحوم کی تحاریر کے بغیر ادھورے سی محسوس ہوتی ہے۔ان کا زمانہ اور تھا اور آج کے حالات بالکل مختلف۔محمد عمران صاحب کے افسانہ میں تخلیقیت کا عنصر بھی بدرجہ اتم موجود ہے۔کشمیر کے حالات اتنے سنگین ہیں کہ رومانی انداز میں افسانہ نگار نے اپنے خطہ کا بھرپور و بے لاگ منظر نامہ پیش کیا ہے۔دلی مبارک باد۔
عمران جمیل
ایک اچھا افسانہ خلق کرنا کوئی معمولی بات نہیں ہوتی.. افسانہ نگار محمد عمران صاحب مالیگاوں سے تعلق رکھتے ہیں ممبئی میں آپ کی جاب ہے.... ایک بہترین فنکار ایک کامیاب افسانہ نگار وہی ہوتا ہے جو اپنے اکتساب سے، مطالعہ و ایکسٹرا آرڈینری سمجھ سے کامن سینس کا بہترین استعمال کرتے ہوئے خوبصورت دلنشیں لفظوں سے افسانہ تخلیق کرتا ہے... میری مراد اُن افسانوں کو لیکر ہے جو افسانے کسی مشہور شہر، مشہور ریاست یا کسی ملک کے پس منظر میں لکھے جاتے ہیں.. کیوں کہ ایسا بالکل بھی ضروری نہیں ہوتا کہ افسانہ نگار جب کسی شہر کے پس منظر میں افسانہ لکھنے بیٹھے تو اُسکا اُس شہر کو دیکھنا لازمی ہو... یہ تو افسانہ نگار کے کامن سینس اور تخلیقی طاقت کا کمال ہوتا ہے...
اس معنوں میں محمد عمران صاحب کا یہ افسانہ میرے نزدیک کامیاب افسانہ ہے اُنہیں افسانہ کشمیر ٹائمز لکھنے کے لئے کشمیر میں قیام نہیں کرنا پڑا.....
اس میں کوئی شک نہیں ہیکہ افسانے کی زبان و بیان دل کو چھو گئی... نیلے پانی پر سبک رفتاری سے تیرتے پھولوں سے سجے شکارے میں موجود گوری رنگت و کھڑے نقوش والے کشمیریوں کی داستانِ محبت کو ایسے ہی خوبصورت و نیم داستانوی اُسلوب میں لکھا جانا افسانے کی ضرورت ہے.. جس میں افسانہ نگار کامیاب رہے...
بیانیے میں بات سے بات پیدا کرنے کا ہنر،مذہبی علمی و فلسفیانہ مزاج کے رنگ و آہنگ سے سجا کر خوب صورت بیانیے میں افسانہ پیش تو کیا گیا لیکن گلاب جامن کے شیرے میں شکر کچھ زیادہ ہوجانے سے گلاب جامن کی متوقع لذت کے ساتھ صحیح انصاف نہیں ہوسکا...
بیانیے میں کئی جگہ اضافت کی مدد سے جملے خوبصورت تخلیق کئے گئے.... جو یقیناً قابل تعریف ہے.. لیکن چونکہ رومانوی افسانہ لکھنا ہے تو یہ بات شعوری طور پر احساسات پر حاوی رہ جانے سے منظر نگاری اور جملہ بندیاں رومانس سے تو چھلک اُٹھے.... لیکن افسانے میں کہانی منجمد پانی پر رُکے ہوے شکارے کی طرح ٹھہر سی گئی.... کشمیر کے پھولوں کی معلومات و دیگر باتوں کی تفصیل کسی گائیڈ کی طرح نہ دیتے ہوئے اُن تفصیلات سے گریز کرکے اُنہیں افسانوی انداز میں ہی برتنا چاہیے تھا..... کیونکہ قاری بہرحال ذہین ہوتا ہے... خوبصورت افسانہ پہاڑی سے گرنے والے ٹھنڈے آبشار کی طرح بَس اپنی منزل کی طرف بنا کسی رکاوٹ کے گرنا اور اور بہنا ہی چاہتا ہے... رکاوٹیں کتنی بھی خوبصورت ہوں منزل تک پہنچنے میں اگر مانع بنتی ہیں اُنکی خوبصورتی پھر کوئی معنی نہیں رکھتی....
کلائمیکس میں انفرادیت لانے کی کوشش گو کامیاب تو ہے لیکن تشگی زدہ کامیابی سے مکمل خوشی یا سیرابی نہیں مل سکی....
اس رومانوی افسانے میں مجھے خوشیوں بھری جو خوبیاں نظر آئیں اُس کا میں نے برملا اظہار کیا.. اور اس خوبصورت افسانے میں مجھے جن تشنگیوں کا یا کمیوں کا احساس کھٹکتا رہا اُسے بھی لکھنے کی کوشش کی ہے... اس تبصرے کے ذریعے میں تقریباً 13 مہینے بعد اس پیاری سی بزم میں فعال ہوسکا شکریہ محمد عمران بھائی آپکے پیارے سے افسانے کی وجہ سے یہ کفر تو ٹوٹا.... بہترین افسانے کی پیشکش پر فاضل افسانہ نگار کو دلی مبارکباد..🌹 رد و قبول تسلیم..
سلام بن رزاق
بزم افسانہ کے ساتھیو!
آداب
محمد عمران کا کشمیر ٹائمز پڑھتے ہوئے بے اختیار کرشن چندر یاد آ گئے۔
مگر کشمیر ٹائمز کا ڈکشن، اسلوب، اورپیشکش محمد عمران کا اپناہے۔
اس خوبصورت تحریر کے لیے محمد عمران یقیناً مبارکباد کے مستحق ہیں۔
مگر افسوس زبان کی دلکشی میں کہانی گم ہوگئی۔
کلائمکس میں البتہ نیا پن ہے۔بہر حال ایک عمدہ تحریر کے لیے افسانہ نگار کو مبارکباد اور مبصرین کے لیے نیک خواہشات۔
شکریہ
محمد عمران
ساری ثنایں تمام مدحتیں اس پاک پروردگار کے لیے جو رب ہے تمام جہانوں کا.....
جب بات جنتوں کی ہو رہی ہو تو کیسے ممکن تھا کہ ذکر اُن کے معمار کا نہ ہوتا.... جب بات محبت کی تھی تو کیا مجال کہ اس کی ربوبیت کو نظر انداز کیا جاتا۔۔۔ اسی نے نیلے آسمان بنائے، اسی نے ہر شے میں موسیقی بھر دی، باغ باغیچے ہر تصویر اسی نے کھینچی, اور وہ مصور بھی ایسا مشاق ہے کہ پھول کے ماتھے پر شبنم کی بوندیں تک بنا دیتا ہے، وہ تو پانیوں پے بھی رزق دینے پر قادر ہے، مسکراہٹ بھی خوشی بھی سب وہی دیتا ہے،
اور محبت بھی وہی دیتا ہے۔۔۔ محبت بھی رزق ہوتی ہے....!!!!
پھر جب بات عشق کی ہو رہی ہو تو کیسے ممکن تھا غالب و اقبال نہ آتے، خودی، بے خودی اور فنا کا تذکرہ نہ ہوتا۔۔۔
شہروز بھائی اور انور مرزا صاحب، عمران جمیل سر واقعی افسانہ پیچھے رہ گیا اور جملوں سے عشق ہو گیا، پر ایسا کیوں نہ ہوتا؟ کتنے ہی جملے اور اُن کی ترکیبیں کتابِ عظیم سے جو ادھار لی ہیں۔۔۔ جیسے۔۔۔
{ إِنَّ أَصْحَابَ الْجَنَّةِ الْيَوْمَ فِي شُغُلٍ فَاكِهُونَ.... }
اس روز جب وہ اصحابِ جنت اپنی خوشیوں میں مشغول ہونگے۔۔۔ (سورۃ یٰس)
پہلے جو لکھا تھا۔۔۔
نیلا نیلا آسمان چاروں طرف پھیلا ہوا تھا، سفید بادل سیاہ پرندے، نیلی ڈل جھیل اُن میں تیرتی سفید بطخیں۔۔۔
پھر کہا اُف! کشمیر پر لکھ رہے ہو یار کچھ تو لاج رکھو۔۔۔!!!!
اوپر سے عشق، محبت، رومانس۔۔۔!!!!
اور پھر تھینک گاڈ کہ ایک پیمانہ مقرر کیا۔۔۔ صرف دلکش و دل ربا الفاظ کو اجازت دی، تسبیحات و استعاروں سے مدد لی، قافیہ نادیہ سب کو بلایا۔۔۔ ہم معنی، ہم الفاظ، تضاد، وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔۔۔
ورنہ شاید ریحان کوثر صاحب، شہناز فاطمہ صاحبہ، فردوس انجم صاحبہ، عمران جمیل سر، اور سرپرستِ بزم محترم سلام صاحب سے دادیں نہ ملنے پاتیں۔۔۔ شکریہ آل آف یو۔۔۔
رخسانہ نازنین صاحبہ، ڈاکٹر، ڈاکٹر نعیمہ جعفری صاحبہ، فرخندہ ضمیر صاحبہ، نگار عظیم صاحبہ، نصرت شمسی صاحبہ، فریدہ نثار احمد صاحبہ، خواجہ کوثر حیات صاحبہ۔۔۔
اللہ پاک آپ کے دامن میں خوشیوں کے پھول برسائے۔۔۔
ریاض توحیدی صاحب
اکبر عابد صاحب
راجا یوسف صاحب
غیاث الرحمان صاحب
معین الدین عثمانی صاحب
جاوید آفاق صاحب
حوصلہ افزائی کے لئے، بہت بہت شکریہ، جزاک اللہ خیر۔!!!!
وحید امام صاحب آپکی بات سر آنکھوں پر، اللہ نے چاہا تو اسی عرق ریزی سے حصہ دوم لکھتے ہیں، شاید کہ۔۔۔
🌷 ایک پھول آپ کے لیے بھی۔
ہر مبارکباد پر جتنا حق افسانہ نگار کا ہے اتنا ہی منتظمینِ بزمِ افسانہ کا بھی۔۔۔
محترم سلام بن رزاق صاحب
محترم طاہر انجم صاحب
اور وسیم عقیل بھائی
بہت شکریہ 💐💐💐💐
آخری بات
ایک سال قبل میرا پہلا افسانہ۔۔۔
ہدایت
اسی بزم میں شائع ہوا تھا اور وہ بھی رومانی ہی تھا۔ الحمدللہ تب بھی ساتھیوں نے خوب تحسین کی تھی۔ کسی نے نے تو کہا آپ کے فین ہو گئے، کسی کو ہمارے قلم سے لکھے مزید افسانے پڑھنے تھے وغیرہ وغیرہ۔۔۔ تو اس افسانے کے ساتھ اُن کی امیدوں پر بھی تو کھرا اُترنا تھا۔ تو شکریہ اُن دوستوں کا بھی۔
اور ہاں۔۔۔
افسانہ جس کے لیے لکھا اسی کا ذکر نہ ہو کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔؟
میرے ایک دوست ہیں جن کی بہت خواہش ہے ایک مرتبہ کشمیر جائیں۔۔۔ سوچا لاؤ انہیں ذرا کشمیر دکھا لاتے ہیں۔۔۔
0 Comments