(احمد نگر)
روزانہ کی طرح آج بھی ایضان اپنے دادا ابو کے ساتھ تراویح کی نماز ادا کررہا تھا۔ لیکن آج کچھ خاص بات تھی۔ اس کے ابو نے روز باقاعدہ تراویح کی نماز پڑھنے کی وجہ سے اسے برگر اور آئسکریم کھانے کے لیے پیسے دیے تھے جو اس کے دائیں جیب میں رکھے ہوئے تھے۔ اس کے دل میں ایک عجیب سی خوشی تھی۔ وہ تراویح کی نماز ختم ہونے کا انتظار تھا۔ اللہ اللہ کرکے تراویح کا اختتام ہوا۔ سبھی دعائیں مانگ رہے تھے۔ دعا کے بعد امام صاحب نے ایک اعلان کیا،
‘‘سبھی مومن بھائیوں سے ایک درخواست کی جاتی ہے۔ میرے عزیز دوست داود صاحب کے بیٹے کا کل بہت بڑا حادثہ ہوگیا ہے۔ وہ اسپتال میں زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا ہے۔ ڈاکٹر نے آپریشن کا کہا ہے جس کا کل خرچ تین لاکھ ہے۔ رمضان کا مہینہ ہے۔ اگر آپ لوگ ان کی کچھ مدد کردیں تو ان کے بیٹے کو نئی زندگی مل سکتی ہے ۔ ' انہوں نے
زمین پر ایک رومال بچھا کر کہا،' آپ اپنی حیثیت کے مطابق جو بھی دینا چاہیں، اس میں ڈال دیں۔‘‘ سبھی نمازی خامو شی سے ان کی بات سن رہے تھے لیکن کوئی اپنی جگہ سے اٹھا نہیں۔ کافی دیر تک خاموشی چھائی رہی۔ ایضان نے چاروں طرف نظریں دوڑائیں۔ پھر وہ اٹھ کر تیز تیز چلتے ہوئے رومال کے پاس گیا اور جیب سے برگر اور آئسکریم کے پیسے نکال کر اس میں ڈال دیے۔ پھر کیا تھا! آن کی آن میں ایک ریس لگ گئی۔ سبھی نے رومال میں پیسے ڈالنے شروع کردئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے رومال میی ڈھیر سارے پیسے جمع ہوگئے ۔ داود صاحب کے آنکھوں میں آنسو آگئے ۔ انہوں نے جاتے جاتے ایضان کے سر پرہاتھ رکھ کر ڈھیر ساری دعائیں دیں ۔


0 Comments