عرضِ ناشر
پرویز انیس صاحب کا تعلق ریاست مہاراشٹر کے مردم خیز شہر کامٹی سے ہے۔ والد محترم انیس الدین صاحب جب بی ایس این ایل بھوپال میں فائض تھے اسی دوران آپ نے تاریخی شہر بھوپال میں 22 جون 1977 کو آنکھیں کھولیں۔ والد محترم کے ناگپور ٹرانسفر کے بعد پرائمری تعلیم منسا رام اپر پرائمری اسکول سے اور باقی تعلیم بھی کامٹی سے حاصل کی۔ اعلیٰ تعلیم کے دوران آپ نے ریاستی سطح پر فٹ بال انڈر 19 میں ریاست مہاراشٹر کی نماندگی کی۔
آپ انڈو راما سنتھیٹک انڈیا لیمیٹڈ ناگپور میں اسسٹنٹ آفیسر کے عہدے پر فائز ہیں۔ آپ کی اب تک چار تصانیف شائع ہو چکی ہے۔ تجربات (2018ء) مطبوعہ کہانیوں اور مضامین کا مجموعہ اور ایک تھا راجا (2019ء) بچوں کی کہانیوں کا مجموعہ، افسانچوں کا مجموعہ شری کھنڈ (2021ء) شائع ہو کر ادبی خوب داد و تحسین حاصل کر چکا ہے۔ اسی طرح حدِ گماں (غزلوں اور نظموں کا مجموعہ) طباعت کے مرحلے میں ہے جو عنقریب منظر عام پر آنے والا ہے۔ ماہنامہ الفاظ ہند، روزنامہ صحافت، روزنامہ کشمیر عظمیٰ، روزنامہ راشٹریہ سہارا اور روزنامہ قومی تنظیم میں افسانہ، کہانیاں، سو لفظوں کی کہانیاں، نطمیں اور غزلیں شائع ہوتی رہتی ہیں۔یہ نہایت خوشی اور فخر کا مقام ہے کہ آپ کی چاروں تصانیف الفاظ پبلی کیشن اینڈ ودربھ ہندی اردو پریس کامٹی کے زیر اہتمام شائع ہوئی۔ امید ہے آپ کی یہ چوتھی کتاب شرگوشئ انیس بھی سابقہ کتابوں کی طرح حلقہ اربابِ و ادب میں خوب پذیرائی حاصل کریں گی۔
ریحان کوثر
اپنی بات
پرویز انیس
شاعر کو مست کرتی ہے تعریف شعر امیرؔ
سو بوتلوں کا نشہ ہے اس واہ واہ میں
امیر مینائی
اپنے کئے کاموں کی تعریف ملنا اس سے بہتر کچھ نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ یہ ہمیں اپنی قدر کا احساس دلاتا ہے اور بہترین کوشش کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ یہ تندرستی اور دماغی صحت میں بھی مدد کرتا ہے، لہذا یہ واقعی ایک فرق لا سکتا ہے۔
اسی کا نتیجہ ہے کہ میری اب تک تین کتابیں تجربات، ایک تھا راجا اور شری کھنڈ منظر عام پر آچکی ہیں۔
ورنہ میں نے کبھی سوچا نہیں تھا کہ ایک دن میں بھی صاحب کتاب کہلاؤں گا۔
اگر میں بنا ڈرامہ بازی کئے کہوں تو یہ اتنا مشکل نہیں تھا۔
کیونکہ آج بھی حوصلہ دینے والوں کی تعداد حوصلہ توڑنے والوں سے بہت زیادہ ہیں۔
سچ کہوں تو میرا حوصلہ سب سے زیادہ بھوتوں نے بڑھایا۔
ارے رے۔۔۔ رکیے اس سے پہلے کی آپ میری باتوں کو غلط کانٹیکسٹ میں لیں۔ یا میرے بارے میں کوئی رائے کام کریں۔ میں جلدی سے اپنی بات مکمل کر دیتا ہوں۔
بھوتوں سے میری مراد میری کہانی "بھوتوں کا اسکول" سے ہے۔ یہ وہ پہلی کہانی تھی جسے میرے محدود حلقہ احباب کے باہر ایک واٹس ایپ گروپ میں پیش کی گئی۔ جسے بےحد پزیرائی حاصل ہوئی۔ زیادہ تر پسند کرنے والے وہ لوگ تھے جنھیں میں نام سے بھی نہیں جانتا تھا اور بعد میں جب بچوں کے ادب میں ان کے مقام کے بارے میں علم ہوا میری خوشی دوبالا ہوگئی۔
ہم ایک کام انجام دیتے ہیں اور اس کے لیے ہماری تعریف اور توثیق کی جاتی ہے۔ اس لمحے میں، کوئی اپنی تیز رفتار زندگی سے وقت نکال کر ہمیں نوٹس اور قدر کرتا ہے۔ قابل قدر ہونے کے بارے میں سوچ کر ہی اچھا لگتا ہے۔
بقول والیس ڈی واٹلز ضروری ہے کہ آپ میں آنے والی ہر اچھی چیز کے لیے شکر گزار ہونے کی عادت پیدا کی جائے، اور مسلسل شکر ادا کیا جائے۔ اور چونکہ تمام چیزوں کا آپ کی ترقی میں حصہ ہے، اس لیے آپ کو اپنی شکر گزاری میں تمام چیزوں کو شامل کرنا چاہیے۔
الفاظ صبر و شکر کے بولی میں آ گئے
جنت کے پھل غریب کی جھولی میں آ گئے
عبد الرزاق دلٓ
اسی شکر گزاری کا نتیجہ یہ کتاب "سرگوشئ انیس" ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ یہ سرگوشی صدا بن کر ابھرے۔ آمین
0 Comments