رسم دنیا بھی ہے، موقع بھی ہے، دستوربھی ہے
✍️رخسانہ نازنین
بیدر
کرناٹک
عید کا تصور ہی خوش کن ہوتا ہے۔ مسرت بھرا، خوشگوار احساس دل میں جگاتا ہے ۔ مگر نہ جانے کیوں حالیہ برسوں میں میں نے محسوس کیا کہ عیدوں میں وہ رونقیں نہیں رہیں ۔ وہ سال بھر عید کا انتظار کہ لذیذ، ذائقہ دار پکوانوں سے لطف اندوز ہونگے، نئے ملبوسات پہنیں گے، عید ملاقاتوں کے دور چلیں گے ، بچے عیدی کے حصول کے لئے بے چین اور بزرگ عیدی دینے کے لئے بے تاب ہونگے۔ اب یہ سارے احساسات نہ جانے کہاں کھو گئے ہیں ۔ بڑے تو خیر سے متفکر، پریشان ہو کر بھی عبادات کرلیں تو ان کی عید اسی طرح ہوجاتی ہے لیکن تشویشناک بات یہ ہے کہ بچوں میں بھی اس خوشی کا رنگ پھیکا پڑتا ہوا دیکھا جا رہا ہے جو تہذیب اور مذہب دونوں کے لئے کوئی خوش آئند بات نہیں!...
آج ساری نعمتیں میسر ہیں مگر لوگ چھوٹی چھوٹی خوشیوں کے اہتمام و انصرام سے عاری ہیں ۔ عام دنوں کی طرح عید کا دن بھی گزر جاتا ہے۔ فون پر مبارکبادیاں ۔ اور سوشیل میڈیا پر عید مبارک کے پیامات کی ترسیل۔ نت نئے فیشن کے قیمتی ملبوسات بھی زیب تن کرلئے، مختلف اقسام کے پکوان بھی دسترخوان کی زینت بن گئے۔ سب کچھ ہے مگر وہ خوشی ناپید ہے۔ وہ دلی سکون میسر نہیں! جو کہ وقت عید کو عید بناتا ہے... نہ جانے کیوں ہم ان روحانی خوشیوں سے محروم ہوگئے ہیں ۔ ؟
ایسے خوشی کے موقع پر یادیں، ماضی کی انہیں گلیوں کی سیر کرواتی ہیں کہ جب عید کے دن گھروں میں مسرتوں اور بہاروں کا ڈیرہ ہوا کرتا تھا۔ رشتے داروں کی آمد، انکی خاطر تواضع، وہ سجنا سنورنا، وہ ہنسنا کھلکھلانا۔۔۔۔ وہ معصوم سی خوشیاں نہ جانے کہاں کھوگئیں۔...
دل ڈھونڈتا ہے پھر وہ مسرت کے رات دن
اب تو عید کے دن بھی بس وہی رشتے دار ملنے آتے ہیں کہ روابط برقرار رکھنے میں جن کا کوئی مفاد پوشیدہ ہو ۔ ! اخلاص کے ساتھ شیر خرما پیش کرنے پر تکلف سے معذرت کا اظہار کردیا جاتا ہے۔ عطر پیش کرنے کا رواج بھی رفتہ رفتہ ختم ہوتا جارہا ہے کہ اب سب کی خوشبوئیں بھی پرائیویسی کی نہج پر مخصوص ہوتی ہیں ۔ ! سال بھر نئے ملبوسات کی شاپنگ کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اسلئے عید کے نئے کپڑوں کی بھی اب کوئی اہمیت نہیں رہی ۔ بریانی بھی اب تقریباً ہر ہفتے دو ہفتے بعد گھروں میں بنتی رہتی ہے اسلئے عید کے دن کچن سے آتی ہوئی بریانی کی مہک بھی کوئی خوشگوار احساس نہیں جگاتی۔.. کہتے ہیں بہتات سے معیار برباد ہوتا ہے یہی اصول مجھے ہماری خوشیوں کے بوجھل پن میں بھی کار فرما نظر آتا ہے... شاید ہم آسائشوں اور نعمتوں کے اتنے عادی ہوگئے ہیں کہ اب ہمارے پاس انکی کوئی اہمیت ہی نہیں رہی ۔ اسی لئے عید کے دن کی تمام خصوصیات بھی ہمیں معمول کے مطابق ہی لگنے لگی ہیں ۔ عید کا دن بھی بےکیف گزر جاتا ہے۔ سب کچھ ہے مگر پھر بھی بہت سی کمی ہے! جس کا تدارک دولت ثروت اور ایک دن چھٹی سے ممکن نہیں!...
بدلتے وقت نے ترجیحات بدل دی ہیں۔ اخلاص و مروت کے پیمانے بدل گئے ہیں۔ عیدوں سے وابستہ یادیں ہماری زندگی کا سرمایہ حیات ہوتی ہیں اسلئے ہر ممکن کوشش کی جائے کہ ہماری ہر عید ہمیں کوئی خوبصورت یاد دے جائے۔ عید ملاقاتوں میں اخلاص کا جذبہ شامل رہے ۔
اور تہذیب اسلامی کا یہ نمائندہ موقع
محض
رسم دنیا بھی ہے، موقع بھی ہے، دستور بھی ہے
کے مصداق نہ رہ جائے!
اللہ رب العزت ہم تمام کو مسرتوں سے بھرپور عیدیں نصیب فرمائے اور اللہ تعالی کی رضا کے ساتھ زندگی کی سچی خوشیوں سے ہمارا دامن بھر جائے ۔ آمین ثم آمین
0 Comments