Ticker

6/recent/ticker-posts

بے توجہی (افسانچہ) ✍️ قیوم اثر

بے توجہی
(افسانچہ)
✍️ قیوم اثر

شدید گرمی، سورج جیسے آگ اگل رہا تھا۔اس پر رمضان المبارک کی سعادتوں کا نزول... ستائیسواں روزہ اور دن جمعہ کا۔ آٹھ سالا ثقلین بعد نماز جمعہ گھبراتا، بے چین اور ہانپتا گھر میں داخل ہوتے ہی ماں سے لپٹ گیا۔ پسینہ میں شرابور اور آنکھیں گیلی۔
”کیا بات ہے بیٹا،روزہ دار ہو اور اتنی گھبراہٹ “!ماں نے شفقت بھرے ہاتھ سر پر پھیرتے ہوئے پوچھا۔
”امی امی۔۔۔ ستائیسواں روزہ ہے اور ابھی تک عید کے انتظامات نہیں ہوئے.... نئے کپڑے تو خواب ہے۔ میرے پرانے کپڑوں کو اچھی طرح دھو ڈالیے۔ ضرورت ہو تو کپڑوں میں پیوند لگادیجیے۔ وہی پہن لوں گا۔ثقلین کی ہچکی بندھی ہوئی تھی۔
”بیٹا۔۔۔ ایسا کیوں بول رہے ہو؟“
”امی۔۔۔ ابھی تک کسی نے زکوة پہنچائی نہ صدقات بھیجے! پھر عید کیسے منائیں گے؟“
”بیٹا۔۔۔ایسا کیوں سوچ رہے ہو؟“
”امی۔۔۔آج مسجد میں معمول کے مطابق دور دراز کے دینی مدرسوں سے سفرأ بغرض چندہ آئے تھے۔ کوئی سات آٹھ ہوں گے۔ جمعہ کی بھیڑ، زبردست اعلان کیا گیا۔ بڑے اجر بتائے گئے۔ اتنا ہی نہیں۔۔۔ محلہ والوں کے دل جیت لیے گئے۔ ان کی حمایت بھی حاصل کرلی گئی۔۔۔ دھیرے دھیرے جیبیں خالی ہو گئیں۔ اور وہ سارا مال سمیٹ کر لے گئے ۔ میں اندر ہی اندر کڑھتا رہا“۔ ثقلین رک رک کر بولے جارہا تھا۔
”جانے دے بیٹا۔۔۔ سب کچھ مقدر سے ہے۔گزشتہ سال تیرے ابا کورونا کی نذر ہو گئے۔۔۔ کون پوچھنے والا تھا ! کس نے تسلی دی تھی ؟ فاقوں کی نوبت آ گئی تھی۔ وہ تو بھلا ہو ہاتھ سلائی کا۔۔۔ روکھی سوکھی مل جاتی ہے۔مگر بیٹا تو فکر نہ کر“۔ ماں کی آنکھیں بھر آئیں۔ بیٹے کو چھاتی سے لگائے، وہ لبوں کی جنبش کے ساتھ دھیرے دھیرے بد بدا رہی تھی۔
”ان اللہ مع الصابرین“۔

Post a Comment

0 Comments