کھل جا سم سم
راج محمد آفریدی
پشاور پاکستان
غمستان کے رہنے والوں کی زندگی غربت و افلاس میں گزر رہی تھی کیونکہ وہاں کسی کو کام کسب نہیں آتا تھا۔ زیادہ تر خاندان دوسرے شہروں کی خیرات زکوٰۃ پر گزارا کرتے تھے۔ اسی شہر کا ایک نوجوان جس کا نام علی بابا تھا، خود بہت محنتی اور ہمیشہ دوسروں کو محنت کی تلقین کرنے والا تھا۔
ایک دفعہ علی بابا نے اپنے شہر کے نوجوانوں سے مایوس ہو کر دوسرے شہر ہجرت کرنے کا فیصلہ کیا۔ پیدل سفر کرتے کرتے وہ راستہ بھول گیا۔ شہر کی بجائے وہ جنگل میں پہنچ گیا۔
عصر کا وقت تھا ، آسمان پر کالے بادل چھائے ہوئے تھے۔ علی بابا کے پاس کھانے کا سامان ختم ہوا۔ بارش کے آثار دیکھ کر اس نے ایک غار میں رات گزارنے کا ارادہ کیا۔ قریب ہی اسے ایک بڑا سا غار دکھائی دیا۔ وہ وہاں آرام کی غرض سے جانے ہی والا تھا کہ غار کے سامنے ایک پھل دار درخت دیکھ کر اس کی بھوک تازہ ہوئی۔ اس نے فوراً چڑھ کر پھل کھانے شروع کیے ۔ اتنے میں اسے گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز سنائی دی۔ آواز سن کر علی بابا خوش ہوا کہ شاید کوئی قافلہ ہے جس کے ساتھ مل کر وہ بآسانی رات گزار لے گا۔ وہ درخت سے اترنے ہی والا تھا کہ اس کی نظر گھڑسوار نقاب پوشوں پر پڑی جو غار کے دہانے پہنچ کر گھوڑوں سے اترے۔ وہ تعداد میں چالیس تھے اور سب اپنے حلیے سے چور ڈاکو لگ رہے تھے۔ علی بابا گھبرایا اور خود کو پتوں میں چھپا کر ان کے جانے کا انتظار کرنے لگا۔
نقاب پوشوں میں سے ایک نے آگے بڑھ کر یہاں وہاں دیکھا اور سب کو اشارہ کرکے گھوڑوں سے بھری بوریاں اتروائیں۔ وہ ان کا سردار تھا ۔ علی بابا کی نظر ایک ہلتی ہوئی بوری پر پڑی مگر اس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ ان بوریوں میں کیا ہے۔ پھر سردار نے بآواز بلند کہا۔ "کھل جا سم سم۔" یہ کہنا تھا کہ غار کا دروازہ ایک طرف سرک کر کھل گیا۔ وہ سارے نقاب پوش گھوڑے باہر چھوڑ کر بوریوں سمیت غار کے اندر داخل ہوئے۔
اس کے ساتھ غار کا دروازہ بند ہوگیا۔
علی بابا یہ منظر دیکھ کر حیران و پریشان ان لوگوں کے متعلق سوچ رہا تھا۔ وہ خوف کے مارے یہاں سے بھاگنا چاہ رہا تھا مگر اندھیرے اور خراب موسم کی وجہ سے وہی چھپا بیٹھا رہا۔
تھوڑی دیر بعد غار کا دروازہ پھر سے کھلا اور سارے نقاب پوش باہر نکل آئے۔ اتنے میں سردار نے ادھر ادھر دیکھ کر بآواز بلند ہوکر کہا ۔ "بند ہو جا سم سم۔" غار کا دروازہ بند ہوا تو چالیس کے چالیس نقاب پوش گھوڑوں پر سوار ہو کر وہاں سے چل دیے۔ علی بابا کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ جب نقاب پوش اس کی آنکھوں سے اوجھل ہوئے تو علی بابا درخت سے نیچے اترا۔ اب وہ وہاں سے جانا چاہ رہا تھا مگر اچانک تیز بارش شروع ہوگئی۔ علی بابا نے خراب موسم کے باعث غار میں پناہ لینے کا ارادہ کیا۔ اس نے ڈرتے ڈرتے آگے بڑھ کر تیز آواز میں کہا۔ "کھل جا سم سم۔" یہ کہتے ہوئے وہ ایک طرف چھپ کر انتظار کرنے لگا کہ غار کا دروازہ کھل گیا۔ وہ جھجھکتے ہوئے غار کے اندر گیا۔ اندر جا کر اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ ہر طرف سونے جواہرات کے انبار لگے ہوئے تھے۔ علی بابا نے فوراً کہا۔ "بند ہو جا سم سم۔" اسی طرح دروازہ بند ہوگیا تو وہ مطمئن ہو کر دوبارہ غار کے اندر آسائشوں کو دیکھنے لگا۔ اچانک اس کی نظر ایک ہلتی ہوئی بوری پر پڑی۔ اس نے ڈرتے ڈرتے بوری کھول دی۔ وہ چیخ مار کر پیچھے ہٹا کیونکہ بوری میں ایک بندھا ہوا لڑکا تھا۔ اس کے ہاتھ پاؤں زنجیروں سے جکڑے ہوئے تھے اور منہ میں کپڑا ٹھونسا گیا تھا۔ علی بابا کو لڑکے پر ترس آیا ۔ اس نے خود کو تسلی دے کر اس کے منہ سے کپڑا نکالا۔ لڑکے نے اپنے حواس بحال کرتے ہوئے کہا۔ "یہ زنجیر بھی کھول دو اور کہیں سے مجھے پانی پلا دو میرے بھائی!" علی بابا نے پانی ڈھونڈا مگر اسے ناکامی ہوئی۔ اس نے آ کر لڑکے سے کہا۔ "زنجیر کھولنے سے پہلے یہ بتاؤ کہ تم کون ہو؟ کیا تم بھی خطرناک ہو اور اس حالت میں کیوں ہو؟" لڑکے نے کہا۔" میں الہ دین ہوں۔ ان ڈاکوؤں نے مجھے سوتے ہوئے پکڑا اور ساتھ میں میرا چراغ بھی چرا گئے۔" یہ سن کر علی بابا کو الہ دین کی پہچان ہوگئی۔ اس نے زنجیر کھولنے کی کوشش کی مگر کھول نہ سکا۔ الہ دین نے اس کی کوشش دیکھ کر کہا۔ "کہیں سے میرا چراغ ڈھونڈو ، اس میں میرا جن رہتا ہے۔ چراغ رگڑ کر جن نکل آئے گا۔ وہ یہ زنجیر کھول سکتا ہے۔" علی بابا نے تمام بوریوں کو خالی کرکے چراغ ڈھونڈ نکالا اور فوراً الہ دین کے ہاتھ کے قریب لا کر رگڑا تو اس سے جن نکل آیا۔ جن نے نکلتے ہوئے کہا۔ "کیا حکم ہے میرے آقا!" الہ دین نے کہا۔ "پہلے تو یہ زنجیریں کھول دو اور پھر پانی کا بندوست کرو۔" جن نے جادو سے الہ دین کو آزاد کیا اور پانی کا جگ لا کر اس کے سامنے رکھ دیا۔ اتنے میں باہر گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز آئی۔ علی بابا پر خوف طاری ہوگیا لیکن الہ دین مطمئن تھا۔ الہ دین نے علی بابا کی گھبراہٹ دیکھ کر کہا۔"ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں میرے بھائی! ہم ان ڈاکوؤں کے آنے سے پہلے یہاں سے چلے جائیں گے۔" یہ سن کر اسے تسلی ہوئی۔ الہ دین نے جن کو حکم دیتے ہوئے کہا۔"یہاں مجھے اپنے دوست سمیت پورے خزانے کو غائب کرکے میری رہائش گاہ پہنچا دو۔" جن حکم ملتے ہی سارے خزانے، علی بابا اور اپنے مالک الہ دین کے ساتھ غائب ہوگیا۔ اسی دوران سارے لٹیرے غار میں داخل ہوئے۔ وہ خالی غار کو دیکھ کر افسوس کرنے لگے۔
ادھر علی بابا نے الہ دین کی رہائش گاہ میں رات گزاری۔ صبح الہ دین نے اسے آدھے خزانے سمیت رخصت کیا۔ علی بابا نے اپنے شہر غمستان پہنچ کر خزانے سے اپنے شہریوں کو خیرات دینے کی بجائے مختلف کارخانے قائم کیے۔ اس نے سارے نوجوانوں کو روزگار فراہم کرکے اپنے شہر کو خوشحال بنا دیا ۔ اپنے بزرگوں کے مشورے سے اس نے اپنے شہر کا نام غمستان کی جگہ خوشحالستان رکھ دیا۔
0 Comments