Ticker

6/recent/ticker-posts

چچا بول بچن کی توبہ | شیریں دلوی

چچا بول بچن کی توبہ

شیریں دلوی

رمضان کا چاند نظر آتے ہی چچا بول بچن ایسے خوشی سے جھومنے لگے، جیسے گھر گھر کر آتے بادلوں کو دیکھ کر مور ناچنے لگتا ہو۔ 

چچا اپنا خاص نعرہ" ارے، او منے کی اماں" بلند کرتے ہوۓ، گھر میں داخل ہوۓ، تو انہیں دیکھ کر چچی جھلائیں۔ " اے،ہے، کہاں غائب ہو گۓ ہیں شام سے؟ رمضان المبارک کا چاند نظر آ گیا، مگر آپ نظر نہیں آۓ۔ "

چچی کی جھنجلاہٹ پر چچا اتراۓ۔ " اے لو چھ فٹ کا لمبا آدمی سامنے کھڑا ہے آپ کو نظر نہیں آرہا۔ "

چچی نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔۔۔۔۔ " اچھا، اچھا یہاں آپ کھڑے ہیں، مجھے لگا کھونٹی پر کپڑے ٹنگے ہیں۔" 

چچا نے محسوس کیا کہ چچی نے ان کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا یے، تو چچاکھسیا گۓ۔ " بس بس، زیادہ بول بچن نہ بگھاریو، جلدی سے بتاؤ سحری کے لیے کیا لائیں، ہاں جلدی کیجیو، مجھے تراویح بھی پڑھنی ہے۔ "

چچی نے دو ہزار کا نوٹ بڑھاتے ہوئے کہا۔ " لے آئیں سحری کا سامان۔ " 

چچا نے نوٹ پکڑتے ہوۓ خوشی کا اظہار کیا۔ " بم، پٹاخےاور۔۔۔ ۔۔۔۔ " چچی نے جملہ اچک لیا۔ " اے ہے، کیا کہا؟ بم پٹاخے؟؟؟ کیا اسے سحری میں کھانے کی اشیا سمجھا جاۓ؟ "

چچا جھلاۓ۔ " اری نا مراد، اس سے تو ہم وقت سحر کے ختم ہونے کے اعلان کے طور پر استعمال کریں گے اور وقت مغرب بھی۔ "

چچی نے اپنے ماتھے پر ہاتھ رکھا اور جھنجھلاہٹ کا اظہار کیا۔ " یہ کیا احمقانہ حرکت ہے؟ خیر چھوڑیے آپ سے کون بحث کرے، کھانے کے سامان کیا ہوں گے؟ آپ اچھے ہوٹل سے قیمہ، نہاری اور نان لے لیجیے، ہاں فرنی، لچھے اور ملائی ساندن بھی لیتے آئیں۔ "

چچی سے سحری کے سامان کا آرڈر لیے چچا گھر سے رخصت ہو گۓ۔ 

گھر میں رمضان کی آمد کی رونق تھی۔ بچے سونا نہیں چاہتے تھے کیونکہ انہیں روزہ رکھنا تھا۔ بہو بیٹیاں چچی کے حکم کے مطابق کام کر رہی تھیں، کوئی آٹا گوندھ رہا تھی، تو کسی کو فریج کی صفائی کا ذمہ دیا گیا تھا۔ نۓ برتن سجاۓ جا رہے تھے، نۓ دستر خوان سنبھالے جا رہے تھے۔ 

چچی نے اپنی چوکی سنبھالی اور قرآن پاک کی تلاوت کرنے بیٹھ گئیں۔ 

رات کے تقریباً دو بجے چچا اپنا مخصوص نعرہ بلند کرتے عمارت میں داخل ہوۓ۔ " منے کی اماں، اری او منے کی اماں" چچا کا نعرہ سنتے ہی بچے دوڑ پڑے، سب نے چچا کے ہاتھ سے تھیلیاں لے لیں۔ 

چچی نے قرآن کے صفحے پر مور کا پر رکھ کر اسے بند کیا۔۔۔۔ حفاظت سے اٹھا رکھا اور بیٹھ گئی، سب چیک کرنے۔ خدا کا شکر کہ اس بار چچا نے سودا درست لایا تھا اور کچھ بھولے نہ تھے۔ 

رات کے ڈھائی بجے چچا نے اعلان کر دیا۔ " دستر خوان لگا دیا جاۓ، اول وقت میں سحری کرنابہترہوتا ہے۔ یوں بھی اب ڈھائی بج ریے ہیں، بچے بڑے سب جاگ رہے ہیں۔ سحری کا وقت ساڑھے چار بجے ختم ہوتا ہے۔ دو ہی گھنٹے باقی ہیں۔ " 

چچا کے اس اعلان کے ساتھ سارے بچوں نے ایک ساتھ خوشی کا اظہار کرتے ہوۓ خوب شور مچایا( یاد رہے ، چچا کے چھ بیٹے اور چار بیٹیوں سے کل ۲۳ پوتے ہوتیاں، نواسے نواسیاں ہیں) 

ان سب کا شور سن کر پڑوسی بیدار یو گۓ اور چچا کے یہاں خیریت دریافت کرنے آگۓ۔ 

بچوں کی اس حرکت پر کچھ لوگ دبے لفظوں ناراضگی کا اظہار کر کے چلے گۓ۔ 

خدا خدا کر کے دسترخوان پر نعمتوں کو رکھا گیا۔۔۔ سب سے پہلے بچوں کو بٹھایا گیا۔۔۔تو حال یہ تھا کہ کوئی کسی کو پیالی نہیں مل رہی، تو کسی کو تھالی، کوئی چمچ کو پکار رہا تھا، تو گلاس بجا رہا تھا۔۔۔

بچوں نے سیر ہو کر کھایا، تب گھر کے دیگر افراد بیٹھ گۓ سحری کے لیے۔ 

یہ سب ہوتے ہوتے کچھ چار بجنے والے تھے۔ چچااپنی چاۓ کی پیالی لے کر بلڈنگ سے باہر فٹ پاتھ پر اپنی کھاٹ پر بیٹھ گۓ۔ چاۓ پی لی۔۔ پھر پان بھی منہ رکھ لیا۔۔ تھوڑا ٹہلتے رہے، پھر اپنی کھاٹ پر آکر دراز ہو گۓ۔ 

چچا بول بچن دن بھر کے تھکے اور رات کے جاگے ہوۓ تھے۔ بھر پیٹ کھایا تھا کھاٹ پر دراز ہوتے ہی نسیم سحر کے جھونکوں نے انہیں سلا دیا۔ 

صبح جب سورج نے دھیرے دھیرے اپنی آنکھیں کھولیں اور چچا سے آنکھیں چار کرنے لگا۔۔۔ ہلکی تمازت اور روشنی سے چچا نے بھی مسکرا کر سورج کی جانب دیکھا۔۔ ہولے سے اٹھ بیٹھے اپنا انگوچھا جھٹک کر کاندھے پر رکھا، تو دیکھا انگوچھے کے نیچے رکھی ماچس کج ڈبیہ اور پٹاخے۔۔۔ یہ دیکھتے ہی انہیں یاد آیا کہ سحری کر کے یہاں لیٹے تھے اور ماہ رمضان کے پہلے روزے کے وقت سحری کے ختم ہونے کا اعلان بھی نہیں کر سکے۔ 

پھر کیا، چچا جھلاتے ہوۓ اٹھے اور گھر کی جانب چلے اپنا مخصوص نعرہ بلند کرتے ہوۓ۔ " منے کی اماں، اری او منے کی اماں۔۔۔۔۔۔ "

چچی کے ساتھ ساتھ گھر کے اور لوگ بھی آنکھیں ملتے ہوۓ کھڑے ہو گۓ۔ سب نے یک زبان زبان پوچھا۔ " کیا ہو گیا؟ "

چچا نے تقریباً چیختے ہوۓ کہا۔ " کیا ہو گیا؟ ارے کمبختو ہماری آنکھ لگ گئی اور کسی نے جگایا بھی نہیں۔سحری کا وقت ختم ہونے کا اعلان کرنے کے لیے بم پٹاخے لاۓ تھے، ہم اس کا استعمال نہیں کر سکے۔۔۔ چچا خوب سب کی خبر لے رہے تھے چچی اور بیٹے سمجھا رہے تھے کہ کل سے کر لینا۔۔۔ آج ایک دن نہیں اعلان کر سکے کوئی بات نہیں۔ 

چچا اور گھر کےافراد کی بحث سن کر پڑوسی بھی آ گۓ۔ پڑوس میں سلیم بھائی بھی رہتے تھے با وقار، بردبار اور سلجھے ہوت ذہن کے مالک۔ انہوں نے چچا کے کندھے پر نرمی سے ہاتھ رکھا اور باہر کی جانب لے گئے۔ 

پھر سمجھایا۔ " آپ جانتے ہیں، آتشبازی اور شور شرابے سے ہمارے مذہب میں منع کیا گیا ہے۔اب ہم لوگ گھڑی اور ٹائم ٹیبل دیکھ کر بھی روزہ رکھ سکتے ہیں اور افطار کر سکتے ہیں۔ اس شور شرابے سے لوگوں کو تکلیف ہوتی ہوگی، لوگ ناخوش ہوتے ہوں گے، آپ کو یہ تو پتہ ہوگا، جس شخص سے اس کا پڑوسی خوش نہ ہو، اس سے اللہ تعالیٰ بھی ناراض رہتا ہے۔ "

چچا کی تربوز جیسی کھوپڑی میں یہ بات آگئی۔ سلیم بھائی سے وعدہ کیا آئندہ ایسی حرکت نہیں کریں گے۔۔۔ اور توبہ کر لی۔۔۔۔ سلیم بھائی نے چچا سے مصافحہ کیا ساتھ ہی معانقہ بھی کیا اور اپنے گھر چلے گۓ۔ 

چند لمحے گزرے ہوں گے کہ بم پٹاخوں کی تیز آواز گونجنے لگی۔۔۔ وہاں دھواں بھی جمع ہو رہا تھا، عمارت کے لوگ باہر آگۓ یہ دیکھنے کہ شور کیسا ہے؟ چچا کے اہل خانہ کے ساتھ سلیم بھائی بھی آگۓ۔۔۔۔ چچا نے آگے بڑھ کر سلیم بھائی کا ہاتھ پکڑا اور بڑے فخر سے کہا۔ " آج سے میں نے بم پٹاخوں اور آتشبازی کے استعمال سے توبہ کر لی۔۔۔۔ اور اسی توبہ کے اعلان کے طور پر یہ بم پٹاخے پھوڑے ہیں، تاکہ ہماری توبہ کا اعلان آپ سب سن سکیں۔ "

پٹاخے خاموش ہوۓ اور ہنسی کے قہقے ابل پڑے ، مسکراہٹوں کی پھلجھڑیاں چھوٹ رہی تھیں اور چچا بول بچن کھسیانی حالت میں سب کو دیکھ رہے تھے۔۔۔۔

Post a Comment

0 Comments