تمام عمر اِسی احتیاط میں گزری
✍️مفتی حافظ ضیاء الرحمٰن الہٰ آبادی
امام وخطیب جامع مسجد، کامٹی
ایک مسلمان کو ہرلمحہ اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ کہیں اس کی ذات سے، یا کسی بات سے کسی بھی مخلوق کو تکلیف نہ پہنچ جائے، سب کو خوش رکھنا نہ تو ممکن ہے، نہ ضروری، لیکن اپنی کسی اداسے کسی کو تکلیف میں ڈالنا انسان کے اختیار میں ہے، لہٰذا اس سے بچنا اس پر واجب ہے۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: وَقُلْ لِّعِبَادِيْ يَـقُوْلُوا الَّتِيْ ھِيَ اَحْسَنُ۰ۭ اِنَّ الشَّيْطٰنَ يَنْزَغُ بَيْنَہُمْ۰ۭ اِنَّ الشَّيْطٰنَ كَانَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوًّا مُّبِيْنًا۵۳ (بنی اسرائیل۔پ۱۵)
ترجمہ:میرے مؤمن بندوں سے کہہ دو کہ وہی بات کہاکریں جو بہتر ہو۔ درحقیقت شیطان لوگوں کے درمیان فساد ڈالتاہے۔ شیطان یقینی طورپرانسان کا کھلادشمن ہے۔
لہٰذا جب کسی سے کوئی بات کہنی ہوتواللہ تعالیٰ سے دعاکرکے احسن طریقے سے بات پیش کریں ورنہ دشمن شیطان تو موقع کی تلاش میں رہتاہے کہ کس طرح دوایمان والوں کے درمیان پھوٹ ڈالے؟ ہمیں شیطان کو موقع نہیں دینا چاہئے۔ ؎
بات گرچہ بے سلیقہ ہو کلیمؔ
بات کہنے کا سلیقہ چاہیے
(کلیم عاجزؒ)
ایک عام وبا
آج ہمارے معاشرے کی حالت یہ ہے کہ کوئی شخص اس بات کی پروا نہیں کرتا کہ اس کے رہن سہن، بول چال سے کہیں کسی کو تکلیف تو نہیں پہنچ رہی ہے، جس کا چاہامذاق اُڑا دیا، جس پر چاہاکوئی جملہ کَس دیا، جس کا چاہابلااجازت کوئی سامان استعمال کرلیا، بیمار کی عیادت کی تو حوصلہ افزائی کے بجائے فکر میں ڈالنے والی بات کہہ دی، کسی محنتی ہنرمندکو دیکھاتو بجائے تعریف کے تنقیص کردی۔ نہ والدین ورشتہ داروں کو خوش رکھنے کی فکر ہے نہ پڑوسیوں کے ساتھ حسنِ سلوک کا خیال ہے۔ ذرا نیک کام ہونے لگے تو گنہگاروں سے نفرت شروع ہوگئی، ذرا کچھ اللہ تعالیٰ نے نواز دیا تو دوسروں کو حقیر سمجھنے لگے۔ یہ سب باتیں اور اس طرح کی دوسری باتیں ایک مؤمنِ کامل اور مسلمِ صادق کی شان کے خلاف ہیں۔
مؤمن کی شان
نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِّسَانِہٖ وَیَدِہٖ‘‘ [بخاری]
(کامل) مسلمان وہی ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں)
حکیم الامت مجدّد الملّت حضرت مولانااشرف علی تھانوی اس حدیث شریف کے ضمن میں ارشاد فرماتے ہیں کہ جس فعل سےمسلمان کو اِیذا ہو وہ دین نہیں بلکہ ترکِ دین ہے، بعض موقعوں پر نماز کا قطع کرنا واجب ہے، مثلاً تمہارے سامنے کوئی کنویں میں گِراجاتاہواور تم نماز میں ہو تو واجب ہے کہ نماز توڑکراس کو بچاؤ، اور نہ کروگے تونماز کا ثواب نہیں بلکہ گناہ ہوگا۔ (اصلاحِ دل، ص: ۲۱۹) نیز فرماتے ہیں ’’میرے نزدیک طریق (تصوف وسلوک) کا حاصل یہ ہے کہ کسی کو ہمارے ہاتھ یا زبان سے ذرّہ برابر ناگواری نہ ہو۔(ایضاً، ص:۱۴۳)
قابلِ رشک اور محتاط زندگی
مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب کو اسد ملتانی صاحب کا ایک شعر بہت پسند تھا اور حضرت مفتی صاحبؒ کی پوری زندگی اس شعر کا مصداق تھی جیسا کہ ان کے فرزندشیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم فرماتے ہیں:
’’رمضان المبارک(۱۳۹۶ھ) میں حضرت والد ماجدؒ پر پَے در پَے دل کی تکلیف کے حملے ہوتے رہے اور طبیعت بہت خراب رہی،عید کے بعد جب کیفیت بہتر ہوئی تو ایک روز فرمانے لگے۔رمضان المبارک میں جب میری طبیعت زیادہ خراب تھی، تو یہ امید تھی کہ شاید اللہ تعالیٰ مجھے رمضان نصیب فرمادے، یہ فرماکر وہ کچھ رُکے، اور میں سوچنے لگا کہ وہ رمضان کی موت کی آرزو کا ذکر کرنا چاہتے ہیں، مگر معاً یہ محسوس ہوا کہ وہ کچھ اور کہنا چاہتے ہیں،اور تردُّد ہورہاہے کہ یہ بات کہوں یا نہ کہوں!پھر ذرا سے توقف کے بعد رُک رُک کر فرمایا: لیکن میرا حال بھی عجیب ہے، لوگ تو رمضان میں مرنے کی تمنّا کرتے ہیں، لیکن میں تمنا نہ کرسکا، اس لئے کہ مجھے یہ خیال لگارہا کہ اگر رمضان میں یہ واقعہ ہواتو اُوپر والوں(گھر والوں اور تعزیت کرنے والوں) کو بڑی تکلیف ہوگی، اور اُن کے روزوں اور تراویح وغیرہ کے معمولات میں دشواری پیش آئےگی۔
اَللہُ اَکْبَر!میں اپنے کانوں سے یہ الفاظ سن رہاتھا اور اس ایثار مجسم کو تک رہاتھاجس کی پروازِ فکر ہمارے تصور کی ہرمنزل سے آگے تھی، عبادت وزُہد کے شیدائی بحمداللہ آج بھی کم نہیں، لیکن بسترِ مرگ پر اِن رعایتوں کا پاس کرنے والے اب کہاں ملیں گے؟
ان کا یہ بے ساختہ جملہ، ان کی پوری زندگی کے طرزِ فکر کی تصویر ہے۔ وہ خود یہ شعر پڑھاکرتے تھے۔ ؎
تمام عمر اِسی احتیاط میں گزری
کہ آشیاں کسی شاخِ چمن پہ بار نہ ہو‘‘
(یادگار باتیں۔ ص:۱۸۳،۱۸۴)
پورے قرآن کا خلاصہ
شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوری فرماتےہیں کہ پورے قرآن کا خلاصہ تین چیزیں ہیں:
۱ اللہ تعالیٰ کو عبادت سے خوش کرلو۔
۲ رسو ل اللہ ﷺ کو اطاعت سے خوش کرلو۔
۳ مخلوق کو خدمت سے خوش کرلو۔
شیخ سعدیفرماتے ہیں:
شنیدم کہ مردانِ راہِ خدا
دلِ دشمناں ہم نہ کردند تنگ
تُراکَے میسّر شود ایں مقام
کہ بادوستانت خلاف است وجنگ
ترجمہ: میں نے سناہے کہ راہِ خدا کےمَردوں نے دشمنوں کے دلوں کو بھی تنگ نہیں کیا،
تمہیں یہ مقام کیسے مل سکتاہے! جب کہ تمہاری دوستوں سے ہی جنگ چھِڑی رہتی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو نبیٔ رحمت کے صدقے، رحمت بنائیں اور کسی پر زحمت بن جانے سے ہماری حفاظت فرمائیں، نیز ہمیں باطل شکن بنائیں، باطن شکن (دل توڑنے والا) بن جانے سے ہماری حفاظت فرمائیں۔ (آمین)
0 Comments