"غزل " (غیر مطبوعہ)
سلیم سرفراز
جنسِ وفا ہے شہر میں بےکار بیچ دے
ہو کوئی سادہ لوح خریدار بیچ دے
تاجر کی دسترس میں ہے جنگل کا تخت وتاج
ایسا نہ ہو کہیں وہ سب اشجار بیچ دے
اب مجھ کو اعتماد کسی پر نہیں رہا
قیمت ملے تو آدمی کردار بیچ دے
وہ شخص اپنی چرب زبانی کے وصف سے
مجمع کو برگ و گل کی جگہ خار بیچ دے
ملّا کہ پیر، لذتِ دنیا کا ہے اسیر
موقع ملے تو جبہ و دستار بیچ دے
صادر ہوا ہے حکم کہ دیکھے نہ کوئی خواب
ہر شخص اپنا دیدہءبےدار بیچ دے
بازار کے اچھال میں کچھ بھی عجب نہیں
دانشورِ وطن بھی جو افکار بیچ دے
اولادِ ناخلف سے نہیں یہ بھی کچھ بعید
اسلاف کے وہ سارے ہی آثار بیچ دے
ناقدریِ فنون کے ماحول میں سلیم
ڈر ہے کہیں نہ خود کو ہی فن کار بیچ دے
🏵️
0 Comments