حمد
بحر و بر، خلاؤں میں صرف نام تیرا ہے
فیض سارے عالم پر صبح وشام تیرا ہے
ہر چمن کا مالی تو ، سب نظام تیرا ہے
بیکسوں کا والی تو، فیضِ عام تیرا ہے
کیوں نہ کو بہ کو مہکے، کیوں نہ چار سو مہکے
یہ بیان تیرا ہے، یہ کلام تیرا ہے
چاند اور ستارے سب، تو نے ہی بنائے ہیں
پھول اور خوشبو کا اہتمام تیرا ہے
بخش دینے والا تو، ہم گناہ کے عادی
دل کے گوشے گوشے میں احترام تیرا ہے
مُشک ہے خیالوں میں، عشق ہے مثالوں میں
ذہن و دل معطر ہیں ، وہ کلام تیرا ہے
معرفت کی مَے سے کیوں دِل نہ انکے دھل جائیں
میکشوں کے ہاتھوں میں جو ہے بام تیرا ہے
تو ہی تو سہارا ہے، بخش دے اُسے مولا
عاصیوں میں آصفؔ بھی اِک غلام تیرا ہے
✍️آصفؔ اقبال
0 Comments