دنیا میں ایک چاند کی ہلچل ہے اس قدر
کیا بات ہے کہ دل ہوا بےکل ہے اس قدر
چاند ہوگیا، چاند ہوگیا، بچوں کی اس آواز میں وہ کون سا جادو چھپا ہوا ہے کہ چھوٹے تو چھوٹے، بڑے اور بزرگ حضرات بھی اس آواز کی نغمگی اور کشش سے اتنے مسحور ہوجاتے ہیں کہ پل بھر کے لیے وہ اپنے آپ کو بھول جاتے ہیں اور پھر کچھ لمحہ سنبھلنے کے بعد مسکراتے ہوئے چاند دیکھنے کی دعا پڑھنی شروع کردیتے ہیں۔ اگر چہ ہرجگہ عید منانے کے انداز الگ الگ ہوتے ہیں، مگر قدر مشترک کے طور پر روزے کی تکمیل پرعید کی خوشیاں ہی اصلا کار فرما ہوتی ہیں۔ عید کا چاند دیکھنے کے بعد ماحول ہی بدل جاتا ہے، عید کی خوشیوں کا مزا تو کل صبح کو ملنے والا ہوتا ہے، مگر عید کے استقبال میں رات ہی سے پکنے والی عیدی ڈشوں کی خوشبوؤں سے پورا محلہ معطر ہوجاتا ہے، بچوں کی طرف سے گلی کوچوں میں لگنے والی کاغذی خوبصورت رنگین جھنڈیوں سے گلیوں کا نقشہ ہی بدل جاتا ہے، جگہ جگہ استقبالی گیٹ اور اس پر لکھے گئے عید مبارک سے جہاں بڑوں کو ایک روحانی سکون اور مزا حاصل ہوتا ہے وہیں بچوں کو ان دلچسپ کاموں میں لگنے اور اپنے ہاتھوں بڑھ بڑھ کر سارا کام کرنے کا اپنا الگ ہی لطف ہوتا ہے۔ گھروں میں بچیاں اگر اپنے ہاتھ پاؤں کو مہندی کے خوبصورت ڈیزائنوں سے مزین کرنے میں مشغول رہتی ہیں تو بچے باہر نکل کر اپنے دوستوں کے ساتھ گلی کوچوں کو رنگین اور پرکشش بنانے میں مصروف رہتے ہیں، ہر عمر کی بات اور مشغولیت جدا ہوتی ہے، اگر گھر کے ذمہ دار عید کے دن پکائے جانے والی اشیا اور مختلف قسم کے گوشت کے حصول کی فکر میں سرگرداں رہتے ہیں تو عورتیں عید کے دن کے لیے گھر والوں اور مہمانوں کے استقبال اور اکرام کی خاطر سوئیاں اور شاہی ٹکڑے بنانے میں دلچسپی رکھتی ہیں، غرض چھوٹا ہو یا بڑا، مرد ہوں یا عورتیں، عید کا چاند دیکھ کر عید کو اچھی طرح گذارنے کے لیے بےکل رہتی ہیں، عشا کے بعد ہی سے منہ کے ذائقے کو دوبالا کرنے کے لیے کہیں چٹ پٹے پکوڑے تلے جارہے ہیں تو کہیں خوشبو دار سوئیوں سے منہ میٹھا کیا جارہا ہے، کہیں شامی کباب بھنے جارہے ہیں تو کہیں چکن فرائی تیار کی جارہی ہے، ایسا کیوں نہ ہوتا کہ اسی عید کے لیے دن گنے جا رہے تھے، اور رمضان کے آخری عشرے سے تیاریاں جاری تھیں، رات گزرتی گئی ، مگر کام ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے ، بچوں کو کسی طرح ڈانٹ ڈپٹ کر سلا دیا گیا ، صبح جلدی اٹھنے کے تقاضے سے وہ سوگئے، مگر بڑوں کو کیسے نیند آئے؟ یہی رات تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعام کی تقسیم کی رات ہے ، یہ رات بھی عبادت اور قرب خداوندی کی رات ہے، مگر صبح کو جلدی اٹھنا بھی مسنون ہے، اللہ جانے عورتوں میں خدمت کا جذبہ اللہ تعالیٰ نے کتنا بھر دیا ہے کہ سب سے آخر میں سونے کے باوجود صبح کو سب سے پہلے اٹھ کر کام دھام میں مشغول ہوجاتی ہیں اور پھر سب کو جگانے بھی لگتی ہیں ، آج بچے بس ایک آواز میں جاگ گئے ، اٹھ کر بیٹھ گئے، باہر جاکر معائنہ کرکے مطمئن ہوئے کہ جھنڈیاں سلامت ہیں اور ہوا کے جھونکوں سے جھوم رہی ہیں اور گویا مترنم آواز میں حمد الہی میں مشغول ہیں، آج گھر کا نقشہ اور ماحول ہی بدلا ہوا ہے، سب نہانے اور تیاری میں مصروف ہیں ، مسجد بھی جلدی پہنچنا ہے ، عید کیسے منانا ہے؟ نماز عید کی کیا ترکیب ہے؟ وہ بھی امام صاحب سے سننی ہے ، بچوں کو ہرایک سے عیدی بھی وصول کرنی ہے ، آج مسلمانوں کے لیے خوشی کا سب سے بڑا دن آیا ہوا ہے ، آج کا دن انعام ملنے اور تکمیل روزہ پر اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرنے کا دن ہے ، نماز فجر کے بعد سب وقت کی رعایت سے اپنی اپنی تیاریوں میں مصروف ہیں کہ باہر سے کسی فقیر کی صدا آئی اور صدقۂ فطر نکالنے کے لیے ذمہ داران نے خوشی سے فقیر کی جھولی میں روپئے ڈال دیے، آج کے دن خوشیاں منانے میں سب شریک ہیں ، کسی کی غربت اور تنگ دستی آج خوشیاں منانے میں رکاوٹ نہیں بننے والی ہے ، اللہ نے اپنے فضل و کرم سے مالداروں کے ذریعے فقیروں کو بھی خوشیوں میں شامل کرکے انھیں بھی خوشیاں منانے کی توفیق عطا فرما دی ہے ۔ ان کے بچے بھی اپنے آپ کو کسی امیر زادے سے کم نہیں سمجھتے، صبح کی نماز کے بعد سے عید کی رونق نظر آنے لگی، وقت گزرنے کے ساتھ اس میں خوشگوار اضافہ ہوتا چلاگیا ، آج سارے بچے بوڑھے مرد وعورت اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں، بندے خالق کائنات کی میزبانی پر خوش ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی مہمانی پر خوش ہے، رمضان کے برخلاف آج والدین نماز فجر کے بعد پسندیدہ چیزیں کھانے میں مصروف ہوگئے ، بچے تو دن میں کھاتے پیتے تھے ہی آج وہ بھی والدین کے ساتھ خورد و نوش میں مشغول ہیں ، والدین نے بچوں کو بتایا کہ سارے مسلمان اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں ، اس لیے آج کوئی روزہ نہیں رکھ سکتا، کیوں کہ روزہ رکھنے میں اللہ تعالیٰ کی دعوت سے انکار لازم آئے گا۔
گھر کے اندر کپڑے بدلنے اور نئے نئے خوشنما لباس پہننے کی ہلچل مچی ہوئی ہے، سب اپنی اپنی پسندیدہ چیزوں کی تلاش میں محو ہیں، جب کہ باہر عیدی لباس پہن کر بچوں کے شور و غوغا کی آوازیں گونج رہی ہیں ، جس سے گھر میں بچے اپنا لباس زیب تن کرکے باہر نکلنے کے لیے اتاولے ہوئے جارہے ہیں، ہنستے مسکراتے بچوں کی ٹولیوں اور خوبصورت بچیوں کی سہیلیوں اور ان کے بجتے زیوروں سے گلی اور محلے عید کے رنگ میں رنگ چکے ہیں، عیدی وصول کرنے کے لیے بچے اپنے بڑوں کے درپے ہوئے ہیں اور ان کی جیبیں خالی کرنے پر تل گئے ہیں، کوئی مہنگائی کا بہانہ کرکے پیسے اینٹھ رہا ہے ، کوئی کہہ رہا ہے اب میں پہلے سے بڑا ہوگیا ہوں ، اب مجھے اتنی عیدی چاہیے، کوئی کہہ رہی ہے میں سب سے چھوٹی اور چہیتی ہوں، مجھے سب سے زیادہ عیدی ملنی چاہیے۔ ماں باپ کو بچوں کی یہ معصومانہ ضدیں کتنی پیاری لگتی ہیں اور بچوں کی ضد اور شرارت کے آگے محبت و شفقت میں ان کی مرادیں پوری کرکے وہ کتنی خوشی محسوس کرتے ہیں، بچوں کے ہاتھ پر دس بیس روپے رکھنے سے ان معصوموں کی باچھیں کھل جاتی ہیں اور خوشی سے ان کے گلاب سے چہرے مزید کھل جاتے اور چمکنے لگتے ہیں۔
شام کو عید کے چاند 🌙 نے عید کی نوید سنائی اور صبح کو سورج کی پہلی کرن نے عید ہونے کا اعلان کردیا ، عید کے دن کے آفتاب نے یہ اطلاع دی کہ آج کا دن بچوں اور بڑوں کے لیے عام دن کی طرح نہیں ہے، آج ٹھٹ کے ٹھٹ بارگاہ خداوندی میں دوگانہ ادا کرنے کے لیے لوگ نکلیں گے اور جوق در جوق شکرانے کی دو رکعت پڑھنے کے لئے کھلے آسمان کے نیچے ایک جگہ جمع ہوکر عطیۂ خداوندی سے لطف اندوز ہوں گے۔
یہ دن کوئی عام دن نہیں ہے، آج ہمیشہ کے برخلاف صبح سات بجے سارے مسلمان خوبصورت لباسوں میں ملبوس ہوکر اللہ کی بڑائی کا اظہار کرتے ہوئے نکلے ہیں، بچوں کے زرق برق لباس کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے آسمان سے ننھی منی پریاں زمین پر اتر آئی ہیں، اور چمکتے موتیوں کی طرح فرش پر بکھر گئی ہیں، مردوں کے خوبصورت اور سفید لباسوں کو دیکھ کر گمان ہوتا ہے جیسے معصوم فرشتوں کی جماعتیں آسمان سے زمین پر نزول فرما ہیں، اور جگمگ جگمگ کررہی ہیں، ایک امام کے پیچھے لمبی قطار بنا کر اس طرح چل رہی ہیں جیسے ان کو موتیوں کی طرح کسی لڑی میں پرو دیا گیا ہو، بچے اور بڑے سب کی زبانوں پر اللہ اکبر اللہ اکبر کی دلنواز بھینی بھینی صدائیں جاری ہیں، کتنا تقدس ان کے چہروں سے ٹپکا پڑ رہا ہے، عام جلوسوں اور دیگر مذہبی قافلوں کی طرح نہ ڈھول باجے ہیں نہ نشے میں دھت نوجوانوں کی الٹی سیدھی حرکتیں ہیں، نہ لہراتی تلواریں اور بھالے ہیں نہ دلخراش نعرے اور دھمکیاں ہیں، یہ تو گویا فرشتوں اور معصوموں کے روح پرور قافلے ہیں جو سر جھکائے اللہ تعالیٰ کے دربار میں اللہ تعالیٰ کے نام کی رٹ لگاتے ہوئے جارہے ہیں، ان کو قابو میں کرنے کے لیے نہ تو منتظمین کی ضرورت ہے نہ ان کی رہبری کے واسطے کسی قائد کی حاجت۔ سب کے سب اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے ایک میدان میں پہنچ رہے ہیں کہ نہ جانے ہماری نیکیاں اللہ تعالیٰ کے یہاں قبولیت کے لائق ہیں بھی یا نہیں ؟ بچے اس بات پر انگشت بدنداں ہیں کہ آج دوگانہ کی صورت میں یہ کیسی اضافی نماز ادا کی جارہی ہے؟ جس کی ترکیب کچھ نامانوس بھی لگتی ہے، جس میں جمعہ کے برخلاف خطبہ بھی بعد میں دیا جارہا ہے، اور واپسی میں لوگ راستہ بدل کر گھر کو آرہے ہیں۔ یہ کیسی مسجد یعنی عید گاہ ہے جہاں سال میں دوبار ہی نماز ادا کی جاتی ہے ؟ باقی ایام میں بالکل غیر آباد رہتی ہے، آج نماز کے بعد بچے بچوں سے گلے مل رہے ہیں اور بڑے حضرات بڑوں سے معانقے میں مصروف ہوکر ایک دوسرے کو عید مبارک عید مبارک کہتے جاتے ہیں ۔ اللہ اکبر یہی تو عید ہے، اس میدان میں اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو گواہ بناکر روزہ داروں کی گناہوں کو معاف کر دیا ہے، اس اعزاز پر آسمان میں فرشتے خوشیاں منا رہے ہیں، اور زمین پر مومنین اپنی سعادت پر مسرور ہوکر ایک دوسرے کا منہ میٹھا کررہے ہیں جب کہ بچے عیدگاہ سے اظہار خوشی میں کھلونے، غبارے، اور رنگین چشمے خرید کر ہنستے کودتے واپس آرہے ہیں، اللہ اکبر ۔
0 Comments