Ticker

6/recent/ticker-posts

تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں ✍️محمد احتشام الرشید ملی

تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
✍️محمد احتشام الرشید ملی

تاریخ کے اوراق میں جب ہم گزشتہ اقوام کے عروج و زوال کی داستانیں پڑھتےہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ نوجوان نسل ملک و قوم کا ایک قیمتی سرمایا ہے۔ اگر کسی معاشرہ کو تندرست اور نیک نوجوان میسر آجائیں تو معاشرہ صحت مند اور نیک ہو گا۔ورنہ معاشرہ بگڑجا ئےگا۔نو جوان ہی کسی قوم کے مستقبل کا درخشندہ ستارہ ہیں۔قوم کی امیدیں ان سےوابستہ ہوتی ہیں۔ نوجوان ہی اپنی قوم کے لیے عظیم اور ناقابل فراموش کارنامے انجام دیتے ہیں۔ ان کے وجود میں موجود توانائی ہزاروں ایٹمی ری آیکٹروں سے زیادہ ہوتی ہے۔اوریہی پہاڑوں کو ہلانے اور دریاؤں کے رخ کو موڑنے کے جذبہ سے سرشار ہوتے ہیں۔بحثیت مسلمان اگر ہم اپنی تاریخ پر نظر ڈالیں تو قرآن و سنّت کی بالادستی اور اقتدارِ اعلٰی کے حصول کے لئے نو جوان ہی اپنے تن من دھن کی قربانی دیا کرتے ہیں۔ کبھی یہ نوجوان محمد بن قاسم کی صورت میں اپنی مسلمان بہن کی فریاد سن کر راجہ داہر کے خلاف سندھ کے ریگزاروں میں علم جہاد بلند کرتا ہے۔ تو دوسری طرف طارق بن زیاد بن کراسلامی تحریک کی سر بلند ی کے لیے تلوار کو بے نیام کرتا ہے۔ اور اسپین کے ساحل پر کشتیوں کو نذر آتشکرکے یوں گویا ہوتا ہے۔
کشتیاں ہم نے جلا دی ہیں بھروسہ پہ تیرے اب یہاں سے نہیں ہم لوٹ کے جانے والے مشہور مغربی تاریخ داں پروفیسر فلپ ہیٹی مسلمانوں کے ایک پچیس سالہ حکمراں عبدالرحمٰن اوّل کے کارناموں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ اس نوجوان نے اندلس میں عظیم سلطنت قائم کی۔ اس دوران یورپ مکمل جہالت کی تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ لیکن اس نوجوان نے اپنی قابلیت اور علم و ہنر کی بدولت یورپ کو جگمگایا۔ یہی مسلم نوجوان کبھی احمد شاہ ابدالی کے روپ میں جذبۂجہاد سے سرشار ہو کر مرہٹوں کو نیست و نابود کرتا ہے۔ تو کبھی افریقہ و فرانس کی سرحد میں داخل ہو کر اسلام کا جھنڈا گاڑ دیتا ہے۔ یقیناًسچ فرمایا تھا حضرت خالد ابن ولید ؓ نے دشمنان اسلام سے کہ، میرے پاس ایسے نوجوانوں کا لشکر ہے جنھیں اسلام کی خا طر موت اتنی ہی عزیز ہے جتنی تمھیں شراب پیاری ہے۔ بقول اقبال مرحوم
دی اذانیں کبھی یورپ کے کلیساؤں میں 
کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں میں
شان آنکھوں میں نہ جچتی تھی جہاں داروں کی 
کلمہ پڑھتے تھے ہم چھاؤں میں تلواروں کی 
علامہ اقبال ؒ لندن کی ایک یونیورسٹی میں جہاں عام لوگوں کو اور خصوصاًمسلمانوں کو داخلہ کی اجازت نہ تھی، کسی طریقے سے وسیلہ لگا کر پہنچ گئے۔ وہاں انھوں نے ایک کتاب نکالی، وہ ابو عبداللہ مغربی کی کتاب تھی، جو اسپین کا رہنے والا ایک بڑا حکیم اور فلسفی تھا۔کتاب پڑھتے ہوئے ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔ منتظم کی نظر پڑی تو اس نے پوچھا تم کون ہو ؟ جب اس نے بہت اصرار کیا تو کہا میں اقبال ہوں اور مسلمان ہوں۔ اور اس کتاب کو پڑھ کر رورہا ہوں۔ اس نے فورا ً کتاب لی اور کہا کہ آپ کو اجازت نہیں ہے، آپ تشریف لے جائیں۔ ڈاکٹر اقبال فرماتے ہیں کہ اس کتاب میں پانی سے بجلی تیار کرنے کے جتنے طریقے ہیں ان پر تفصیل سے بحث کی تھی اور ثابت کیا تھا کہ فلاں طریقہ سے بجلی حاصل ہو سکتی ہے۔ اور فلاں طریقہ سے یہ ہو سکتا ہے۔ ان کارناموں کو یورپ والوں نے استعمال کیا۔ یہ تمام چیزیں ہماری تھیں۔ اس کے بعد بڑے درد سے یہ اشعار کہے۔
حکومت کا تو کیا رونا کہ وہ اک عارضی شے تھی
نہیں دنیا کے آئین مسلم سے کوئی چارا
مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا
ایک وقت تھا جب مسلمانوں نے اپنا لوہا منوایا، چہار دانگ ِعالم میں اسلام کے کلمہ کو بلند کیا۔علم کے دریا بہائےدنیا سے جہالت کی تاریکیوں کو ختم کر کے علم کا اجالا کیا آج دنیا ان سے فائدہ اٹھا رہی ہے۔دنیا والے اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ مسلمان قوم وہ واحد قوم ہے جس کے پاس دنیا و آخرت میں امن و سلامتی کے لیے وہ پیغام ہے جو کسی اور قوم کے پاس نہیں۔ ان کے اندر ایمان کی وہ چنگاری ہے کہ اگر سلگ اٹھے تو سارے عالم کو منور کر دے۔ اس لیے آج یہود و نصاریٰ کو اگر خوف ہے تو اسی بات کا کہ اگر مسلمان نوجوان دین کی سر بلندی کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے تو اس تیز رو سیلاب کو دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی وہ اسلامی معاشرے کی طاقت۔ نوجوانوں کو خراب کرنے۔ بگاڑنے اور انھیں دین اسلام سے دور کرنے کی سازشیں کر رہے ہیں۔ عیسائیت کے ایک بڑے پوپ کا کہنا ہے کہ "شراب کا جام اور مغنیہ(گانے والے )اور فاحشہ عورت امّت محمدیہ کو تہہ و بالا اور برباد کرنے میں اتنا بڑا کام کر سکتے ہیں جو کام ایک ہزار توپیں نہیں کر سکتی اس لیے اس قوم کو مادہ اور شہوتوں کی دنیا میں غرق کر دو۔"
اور ایک دوسرے پوپ نے پادریوں کی ایک مجلس میں کہا تھا :"تم نے مسلمانوں کے ملک میں ایسے لوگ پیدا کر دیے ہیں جن کا الله سے کوئی تعلق نہیں اگر وہ پڑھتے ہیں تو شہوت کے لیے، مال جمع کرتے ہیں تو عیاشی کے لیے اور اگر کسی بلند منصب پر پہنچ بھی جائیں گے تو شہوت و لذت کے لئے ہر چیز قربان کر دیں گے۔ "
امام ابن الحاج ؒاپنی کتاب مدخل الشرع میں لکھتے ہیں کہ سب سے پہلے جنھوں نے ناچنے اور جھومنے کو ایجاد کیا وہ سامری اور اس کے ساتھ یہودی تھے۔ جس کی تائید یہود کی کتابوں میں ملتی ہے۔ پھر یہ بری رسم بڑھتے بڑھتے پوری دنیا کے اندر پھیل گئی۔ مزاروں پر دھمال اور طوائفوں کے رقص سامری کی تقلید ہیں۔ اسلام میں ایسی فحش اور بعیدازاخلاق حرکتوں کی گنجائش کہاں ؟ بلکہ حضرت ابو ہریرہ ؓ کی روایت ہے کہ رسول الله ؐ نے ارشاد فرمایا : قیامت کے قریب میری امت کے کچھ لوگوں کو ان کی صورتیں مسخ کر کے بندروں اور خنزیروں کی شکل میں بدل دیا جائے گا صحابہ ؓ نے عرض کیایا رسول الله ؐکیا وہ لوگ مسلمان ہوں گے ؟ آپ ؐ نے ارشاد فرمایا : "ہاں ! وہ لوگ اس بات کی گواہی دیں گے کہ الله کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ میں الله کا رسول ہوں، اور وہ روزے بھی رکھیں گے۔"صحابہ نے پوچھا یا رسول الله ؐ پھر ان کا یہ حال کیوں ہو گا ؟ ارشاد فرمایا : وہ لوگ باجوں اور گانے والی عورتوں کے عادی ہو جائیں گے۔ شرابیں پیا کریں گے ایک رات جب وہ شراب نوش کی اور لہوُ لعب میں مشغول ہوں گے تو صبح تک ان کی صورتیں مسخ ہو چکی ہوں گی۔(ابن حبان) اور حضرت انس ؓ کی روایت ہے کہ رسول الله ؐ نے ارشاد فرمایا : جو شخص کسی گانے والی عورت کے پاس اس لیے بیٹھے تاکہ اس کا گانا سنے تو قیامت کے دن اس کے کانوں میں پگھلا ہوا سیسا ڈالا جائے گا۔ (ابن عسا کر)
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جس طرح والدین کے اخلاق دینداری کا اثر بچوں پر پڑتا ہے۔ اس طرح برائی کا اثر بھی پڑتا ہے۔ یہ بچے کل کے نوجوان ہیں جو اسلام کی طاقت دین کے مجاہد، حق و صداقت کے علمبردار اور سارے عالم میں اسلام کی سربلندی کے لیے جدوجہد کرنے والے ہیں۔ اس لیے فرمایا رسول الله ؐ نے کہ کسی والد کا اپنے لڑکے کو بہترین ادب سکھا دینا اس سے بڑھ کر کوئی تحفہ نہیں۔(ترمذی )نیز فرمایا : "اپنی اولاد کا اکرام کرو اور انھیں اچھے اخلاق سکھاؤ" اس کا اثر پڑتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان جس ماحول و معاشرہ میں رہتا ہے اور جن تعلیم گاہوں میں علم حاصل کرتا ہے اس لیے ایک فرانسیسی عیسائی مبلغ کہتا ہے کہ :
"دین اسلام کا طاقت کے ذریعہ مقابلہ کرنا اسے اور زیادہ پھیلانے کا ذریعہ بنتا ہے۔ اس لیے اس کی تباہی کے لیے نہایت فعال اور مہلک ہتھیار یہ ہے کہ مسلمانوں کے بچوں کو عیسائی مشنری تعلیم گاہوں اور اسکولوں میں تربیت دی جائے اور بچپن ہی سے ان کے عقیدے خراب کرنے کے لیے شکوک و شبہات کے بیج ان میں اس طرح بودئے جایئں کہ انھیں پتہ ہی نہ چل سکے۔"آج مسلمانوں کے اندر بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے عیسائی اسکولوں کی طرف بڑھتا رجحان باعث ِتشویش ہے ڈاکٹر وٹسنس کے الفاظ ہیں :"جب ہم مدارس اسلامیہ میں قرآنی مشن کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں ان مدارس سے یکبار گی خطرے کا سیلاب امڈتا ہوا نظر آتا ہے۔ کیوں کہ قرآن اور تاریخ ِ اسلام یہ دو عظیم اور انقلاب پیدا کرنے والے خطرے ہیں جو تبلیغ ِ عیسائیت کی سیاست کے لیے خوف و دہشت اور سراسیمگی کا باعث ہیں۔"اس لیے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت نوجوانوں کے اندر سے اسلامی بیداری کو ختم کرنے اور اہل اسلام کو ایمان کی بلندی سے نفاق کی پستی میں گرانے کے لیے پوری دنیا میں عورتوں کی آزادی کے نام پر بے حیائی کو، فیشن پرستی کے نام پر نفس پرستی کو، ناچ گانے، ٹی وی، انٹرنیٹ، موسیقی اور نشہ آور چیزوں کو اتنا عام کردیا گیا کہ آج کوئی مسلم ملک اس سے محفو ظ نہیں رہا۔ ہمارے نوجوان بلکہ مسلم خواتین بھی ان سازشوں کا شکار ہو کر گناہوں کے دلدل میں اترتے جا رہے ہیں، اور احساس تک نہیں۔
حالانکہ رسول الله ؐ نے ارشاد فرمایا :"میری امت میں زمین میں دھنسنے، صورتیں بگڑنے اور پتھروں کی بارش کے واقعات ہوں گے۔" عرض کیا یا رسول الله ؐ! ایسا کب ہوگا ؟ ارشاد فرمایا : جب گانے والیاں عام ہو جائیں گی اور شراب حلال سمجھی جائے گی۔ (ابن ماجہ )
ہمارے مسلم نوجوان اسلام سے اتنے اجنبی بلکہ اسلام خود مسلمانوں میں اتنا بیگانہ ہو چکا ہے کہ لوگ بعض مرتبہ روشن خیالی کی زد میں آکر حضور ؐ کی محبوب سنتوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔ اس طرح کفر میں داخل ہو جاتے ہیں۔ اور انھیں احساس تک نہیں ہوتا۔ کہاں گیا وہ مرد ِمومن جو نبی کی ایک سنت کے خا طر وقت کی سپر پاور طاقت کو بھی خاطر میں نہ لاتا تھا۔ جس نے اپنی ایمانی طاقت سے ہواؤں کے رخ کو موڑ دیا تھا۔
اے نوجوان ِ اسلام ! سن لو!تمھاری تباہی کے لیے یہود و نصاریٰ کانفرنسیں کر رہے ہیں۔ کئی کئی ممالک میں تمھاری بربادی کے لیے دماغ لڑا ئے جا رہے ہیں۔ تمھیں دین اسلام سے برگشتہ کرنے کے لیے سازشیں ہو رہی ہیں۔ ہائے افسوس ! باطل طاقتوں نے ایسا کھیل کھیلا کہ کل جو نوجوان اسلام کا علمبردار تھا آج وہ اپنا وقت شراب نوشی، جوابازی، اور انٹرنیٹ کی فحش ویب سائٹس پر عیاشی کرتے ہوئے گزار رہا ہے۔ کل جس کے ہاتھوں میں قرآن ہوا کرتا تھا آج ان ہاتھوں میں فحش و عریاں رسالے اور میگزین ہیں کل جس زبان سے تکبیر و توحید کے نعرے بلند ہوتے تھے آج ان زبانوں سے بے غیرتی اور بے حیائی کے نعرے سنائے جا رہے ہیں۔ ہمارا نوجوان کہاں جا رہا ہے ؟اس کی منزل ِ مقصود کیا ہے ؟ نبی کے دامن کو چھوڑ کر کیا یہود و نصاریٰ کی پیروی میں کامیابی و سکون مل سکتا ہے ؟
فروری ٢٠١٥

Post a Comment

0 Comments