یوں تو سارے ہی مذاہب میں جہالت کو نہ پسند کیا گیا ہے، مگر دین اسلام میں علم حاصل کرنے کی ترغیب جتنی اہمیت کے ساتھ دی گئی ہے اتنی اہمیت کسی نے بیان نہیں کی۔ساڑھےچودہ سو سال پہلے جبکہ عرب کے لوگ وحشی اور جاہل مشہور تھے۔بادشاہان وقت بھی ان پر حکومت کرنا پسند نہیں کرتے تھے۔لوگوں کو رسول کریم ﷺ نے حصول علم کی ترغیب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا : اطلبواالعلم فریضة علی کل مسلم ومسلمة (علم دین کا حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔)،پھر فرمایا: "اطلبواالعلم من المهد إلى اللحد" (علم حاصل کرو پنگوڑھے سے لےکر قبر میں جانے تک)
حضرت مولانا پیر ذوالفقار صاحب نقشبندی دامت برکاتہم اپنا ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ ہم ایک دفعہ کورس کر رہے تھے، جس کا موضوع تھا Manager Effective اور انگلینڈ کےBorrodi.. Mr اس کورس کے ٹیچر تھے۔جو ایک ہی وقت میں کئی یونیورسٹیز میں Visiting پروفیسر تھے۔کیلیفورنیا،انگلینڈ، جرمنی اور ہالینڈ وغیرہ کی یو نیورسٹیز۔اتنا قابل اور ماہر بندہ ہمیں لیکچر دے رہا تھا، انھوںنے علم کے بارے میں بات کی اور کہا کہ ہمارے سائنسدانوں نے آج یہ بات محسوس کی ہے کہ آدمی کو صرف طالب علمی میں ہی نہیں پڑھنا پڑتا بلکہ اپنے Profession (پیشہ ) میں بھی آکر پڑھنا پڑتا ہے، گویا ساری زندگی پڑھتا ہے۔اس نے یہ بات بڑے فخر سے کہی،جیسے بہت بڑی ریسرچ والی بات ہو۔میں نے ان سے کہا کہ تمھیں اپنے آقا ﷺ کی حدیث سنادوں۔انھوں نے کہا ضرور سناؤ۔میں نے یہ حدیث سنائی"علم حاصل کرو پنگوڑھے سے لے کر قبر میں جانے تک۔"(یعنی ماں کی گود سے قبر کی گود تک )یہ حدیث سنتے ہی اس نے اپنا لیکچر بند کر دیا۔بریف کیس کھولا، اپنی ڈائری نکالی اور مجھ سے کہا کہ آپ یہ حدیث مجھے لکھوادیں۔میں آیندہ یہ حدیث اپنے لیکچر ز میں لوگوں کو سنایا کروں گا کہ چودہ سو سال پہلے مسلمانوں کے نبی نے علم کی اتنی اہمیت بتائی تھی۔
لیکن بغیر محنت اور جددوجہد کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ہمارے سلف صالحین نے اتنی محنت کیں کہ لوگ سن کر حیران ہوجاتے ہیں۔امام شافعی تیرہ سال کی عمر میں امام شافعی بن چکے تھے۔تیرہ سال کی عمر میں قرآن و حدیث کے علوم کو حاصل کر چکے تھے۔ ایک سترہ سال کا نوجوان لڑکا اسے اگر آج گھر کا بڑا ذمّہ دار بنا دیں تو وہ گھر کو ٹھیک طرح سے چلا نہیں سکتا۔وہ نوجوان محمّد بن قاسم عمر سترہ سال، کمانڈرانچیف بنا ہوا ہے۔اور تھو ڑی فوج کو لے جارہا ہے ہندوستان کےراجہ داہرکی منظّم فوج کو سبق سکھا نےکے لیےکہ ایک بے گنا ہ مسلمان خاتون کے ساتھ بدسلوکی کی سزا کتنی سنگین ہو سکتی ہے۔ محمّد بن قاسم کے ذهن میں یہ بات اتنی سمائی ہوئی تھی کہ وہ بیٹھےبیٹھے چونک اٹھتا تھا اور کہتا تھا لبیک یااختی، لبیک یااختی میری بہن میں حاضر ہوں، میری بہن میں حاضر ہوں۔اس مختصر فوج نے جو کہ ایمانی جذبات سے سر شار تھی راجہ داہرکی لوہے میں ڈوبی ہوئی فوج کے چھکےچھڑا دئے۔اور آگے چلتے چلتے سندھ سے لے کر ملتان تک اسلام کا جھنڈا لہرا دیا۔
آج اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم بھی محنت کو اپنا ئیں۔کامیاب زندگی، ہمیشہ محنت، لگن اور مجاہدے سے نصیب ہوا کرتی ہے-دنیا کے اعتبارسےبھی جس نے شہرت اور ناموری حاصل کی اسے زبردست محنت کرنا پڑی۔ دنیا کا مشہورسائنسداں'اینسٹائن'کے بارےمیں آتا ہے کہ بچپن میں جب وہ اسکول پڑھنے جاتا تھا تو اسےپیسوں کا حساب بھی نہیں آتا تھا، وہ اکثر اوقات کنڈکٹر سے لڑتا تھا کہ تو نے اتنے پیسے لینے تھے اور اتنے واپس کرنےتھے،جب حساب کیا جاتا تو کنڈکٹر صحیح ہوتا –جب بارہا ایسا ہوا تو ایک مرتبہ کنڈکٹر نے کہہ دیا کہ تو بھی کیا زندگی گزارے گا تجھے تو جمع تفریق بھی نہیں آتی۔ بس وہ بات اس کے دل میں بیٹھ گئی۔اب اس نے محنت کرنا شروع کی اور پھر زندگی میں ایک وقت وہ بھی آیاکہ اس نے Theory of Relativity کا نظر یہ پیش کر کےسائنس کی دنیا میں ایک انقلاب پیدا کر دیا۔ سچ ہے کہ محنت کا پھل ضرور ملتا ہے۔
امام اعظم ابوحنیفہ ؒ کے شاگرد رشید امام محمد ؒ ایک جگہ درس دیتے تھے۔ وہاں سے چند میل کے فاصلہ پر ایک بستی تھی۔ وہاں سے کچھ لوگ آ ئے اور عرض کیا کہ حضرت ! آپ ہمارے یہاں بھی درس دیا کریں، فرمایا کہ میرے پاس وقت بہت کم ہوتا ہے، انھوں نے کہا کہ ہم ایک سواری کا بندوبست کر دیتے ہیں، آپ درس دیتے ہی اس پر سوار ہوں اور ہماری بستی میں آئیں اور درس دے کر جلد روانہ ہو جائیں۔ اس طرح پیدل آنے جانے میں جو وقت لگتا وہی درس میں لگ جائے گا۔حضرت نے قبول فرما لیا اور درس دینا شروع کر دیا یہ وہ وقت تھا جب امام شافعی ؒ بھی ان کی خدمت میں پہنچے ہویے تھے انھوں نے بھی درخواست پیش کرتے ہویے فرمایا کہ حضرت مجھے بھی آپ سے یہ کتاب پڑھنی ہے حضرت نے فرمایا کہ اب کیسے وقت فارغ کریں گے انھوں نے عرض کیا کہ حضرت جب آپ یہاں درس دینے کے بعد سواری پر بیٹھ کر اگلی بستی کی طرف جائیں گے تو آپ سواری پر بیٹھے بیٹھے درس دیں، میں سواری کے ساتھ دوڑتا بھی رہوں گا اور آپ سے علم بھی سیکھتا رہوں گا۔ الله اکبر ! تاریخ انسانیت طالب علم کی ایسی اعلی مثال پیش نہیں کر سکتی یہ دین و اسلام کا حسن و جمال ہے۔
یقیناً من جدّ و جد جو محنت کرتا ہے وہ پا لیتا ہے۔ لہٰذا طلبہ و طالبات کو چاہیے کہ محنت سے علم حاصل کریں، اور وہ تمام چیزیں جو حصول علم کی راہ میں رکاوٹ ڈالیں ان سے پرہیز کریں۔ اساتذہ کا کتابوں کا اور کلاس کا ادب کریں کہ ادب انسان کو بانصب بنا دیتا ہے۔ آج والدین محبت میں بچوں کو موبائل اور گاڑی پکڑا دیتے ہیں، یہ چیزیں طلبہ و طالبات کے لیے نقصاندہ ہیں۔ یہ بچوں کے ساتھ محبت نہیں بلکہ انھیں تعلیم میں کمزور بنانا ہے، ایسا بھی ہوتا ہے کہ کلاس میں استاذ طلبہ کو پڑھا رہے ہیں اور پیچھے کوئی طالب علم موبائیل میں لگا ہوا ہے، اسی کے ساتھ سچے مسلمان بنے نمازوں کا اہتمام ہو الله کا ڈر دل میں ہو، اگر صرف علم ہی علم ہو معلومات ہی معلومات ہو، صحیح ایمان نہ ہو تو یہ بعض مرتبہ بہت نقصاندہ ہوتا ہے۔ آج دنیا میں جو لوگ فساد پھیلا رہے ہیں، خوں کا دریا بہا رہے ہیں، ان کے نزدیک انسانوں کا قتل عام معمولی بات ہے۔ وہ لوگ بھی بڑی بڑی ڈگریوں والے ہیں۔ ان کے پاس بہت معلومات ہیں، بہت سے علوم و فنون میں ماہر، ترقی یافتہ کہلانے والے، لیکن حرام خور انسانیت کے سبق سے محروم و جاہل ہیں، ان کے علم نے ان کے اندر شرافت کو پیدا نہیں کیا، بلکہ شر اور آفت، تکبر اور گھمنڈ کو بیدار کیا، اور دماغ میں فتور بھر دیا کہ دنیا والے ھمارے غلام ہیں شرم و حیا کا جنازہ نکال دیا، ملکوں اور قوموں کے درمیان باہم لڑائی فتنہ و فساد اور بے حیائی کو فروغ میں ان ترقی یافتہ کہلانے والی قوموں کی مثال نہیں ملتی۔ سچ کہا ہے کہنے والے نے :
علم انسان کو انسان بنا دیتا ہے
عمل بے مایہ کو سلطان بنا دیتا ہے
علم الله اسے دے جسے ایمان بھی دے
ورنہ یہ وہ ہے کہ شیطان بنا دیتا ہے
حقیقت یہ ہے کہ صحیح محنت صحیح علم رب کے نام و معرفت کے ساتھ انسان کے لیے دنیا و آخرت میں کامیابی و ترقیات کاذریعہ ہے۔
٭٭٭
0 Comments