یہ اس وقت کی بات ہے جب میں انگریزی اسکول کی دوسری جماعت میں زیر تعلیم تھی۔ گھر شیر خورمے کی ہیالیوں پر لکھا عید مبارک پڑھنا سیکھ لیا تھا۔ عربی کا قاعدہ مکمل ہو گیا ۔۔ اردو اخبار کی سرخیاں ہجے کر کے پڑھ لیتی تھی۔ اس کے بعد پچاس پیسے کی چھوٹی چھوٹی سولہ صفحات کی کہانی کی کتابیں بھی پڑھنا شروع کر دی تھیں۔
ایک روز صبح بیدار ہونے پر امی نے بتایا کہ کل رات ابا تمہارے لیے "کھلونا" لاۓ ہیں۔ جلدی منہ ہاتھ دھوکر ناشتہ کر لو، پھر کھلونا دیکھ لینا۔ تھوڑی دیر تک مجھے حیرت ہوئی۔۔۔ پھر امی کے حکم کی تعمیل کی۔۔۔ ناشتے کے بعد کچھ کہے بغیر میں ابا کی میز کے پاس گئی۔۔۔ وہاں دیکھا ایک رنگین رسالہ رکھا تھا۔۔۔ پہلے لگا کہ یہ ابا کی کوئی نئی کتاب ہوگی۔۔۔ مگر تجسس سے رہا نہ گیا۔ اسے الٹ پلٹ کر دیکھا۔۔۔ اس رسالے کا نام کھلونا تھا۔۔۔ اب بات سمجھ میں آگئی کہ امی کس کھلونا کا ذکر کر رہی تھیں۔۔۔ رسالہ ہاتھ میں لیتے ہی میرے منہ سے چیخ نکلی، کھلو۔۔۔ نا۔۔۔ میری آواز پر سب متوجہ ہوۓ اور میں کھلونا کے صفحات میں کھو گئی۔۔۔ پہلی بار اسے پورا ہڑھنے کے لیے آٹھ دس روز لگ گۓ۔۔۔ ہر مہینے بے چینی سے کھلونا کا انتظار رہتا۔ اس کےبعد یہ رسالہ دو تین دن میں پڑھ لیتی اور ہھر نۓ پرچے کا مطالبہ شرور کرتی۔۔۔ ہھر یمارے گھرماہنامہ ہلال آنے لگا۔۔۔ اس کے بعد ماہنامہ نور۔۔۔
پھر میرا داخلہ اردو اسکول میں کروا دیا گیا۔۔۔ اس کے بعد سیکنڈری اسکول پہنچنے تک۔۔۔ ھدا، ہما، بیسویں صدی، بتول اور بانو یہ سب رسالے گھر آنے لگے۔
اہنی کلاس میں ہر سال اول ہوزیشن حاصل رہتی اور یہ تمام رسالے مہینے بھر میں پڑھ کر نۓ کی تلاش وطلب جاری رہتی۔۔۔
میں آج بھی اپنے والدین کی شکر گزار ہوں کہ انہوں نے بچپن میں میرے ہاتھ میں کھلونے تھمانے کے بجائے کھلونا تھما دیا تھا۔
شیریں دلوی
2 Comments
MASHA ALLAH BAHUT UMDAH
ReplyDeleteواہ ہم بھی ہر ماہ اسی ططرح پیام تعلیم اور امنگ نامی رسالے کا انتظار کرتے اور دو دن میں پڑھ کر ختم کر دیتے پھر اگلے مہینے کی میگزین کا طویل انتظار
ReplyDelete