نظروں کے تیز اور کمزور ہونے کا امتحان تو عید کا چاند ڈھونڈتے وقت ہی ہوتا ہے، ہلالی اور تلوار کی طرح پتلا ہونے کی وجہ سے چمکنے کے باوجود بھی بسا اوقات نظر نہیں آتا، بلکہ ایک بار دیکھ کر اگر نظر ہٹ جائے تو دوبارہ اسے ڈھونڈنا مشکل ہوجاتا ہے، ادھر بچوں کا شور اور ہنگامہ کہ چاند ہوگیا ، چاند ہوگیا، وہ رہا چاند، وہ رہا، اور دوسری طرف کمزور نگاہی کے شکار حضرات کہاں؟ کہاں؟ کہتے نظر آئیں اور آسمان پر نظریں دوڑاتے رہ جائیں۔
29 کے چاند کی بات ہی کچھ اور ہوتی ہے، بچوں کو اس بات کی خوشی کہ عید تیس دن پورا ہونے کے پہلے ہی مل گئی، ہمیں انتظار کرنا نہیں پڑا، کیوں کہ انتظار بڑا بھاری ہوتا ہے، روزہ داروں اور اعتکاف کرنے والوں کو اس بات کی مسرت کہ 29 دن پر ہی تیس دن کا اجر و ثواب مکمل مل گیا، 9 دن میں ہی دس دن کے اعتکاف کی فضیلت حاصل ہوگئی، عجیب اللہ تعالیٰ کی شان اور اس کے نوازنے کی رحمت ہے، تیسری طرف منفی طور پر ابلیس و شیاطین کو قید سے رہائی کی خوشی مل جاتی ہے، جو رمضان المبارک کا چاند نظر آتے ہی زنجیروں میں جکڑ کر دریا برد کردیے گئے تھے، اب وہ کھلے مہار اللہ تعالیٰ کے بندوں کو بہکانے میں ایڑی چوٹی کا زور لگادیں گے اور رمضان المبارک میں کمائی گئی نیکی کی دولت کو برباد کرنے پر تل جائیں گے۔ ہشیار باش۔
اے عید کے چاند، تیری بھی عجیب شان ہے، تیری ایک دید کے کتنے لوگ مشتاق ہیں، آسمان دنیا پر تیرا ہلال بن کر چمکنا دنیا والوں کے لیے الگ الگ قسم کا پیغام لے کر آتا ہے، تجھ سے ہماری عبادتیں وابستہ ہیں، حج اور رمضان کے ساتھ عید و بقرعید جڑی ہوئی ہے، سمندروں میں مدو جزر اور پھلوں میں شیرنیاں تجھ سے مربوط ہیں، تیری ٹھنڈی اور دودھیائی روشنی میں کتنی کشش ہے، چودھویں رات کی تیری چاندنی کا کیا حسین نظارہ ہے، جس نے شعرا اور جمالیاتی ذوق رکھنے والوں کو اپنا دیوانہ بنا رکھا ہے، یہاں تک کہ تیری مثال حدیث میں بھی پیش کی جاتی ہے کہ جنت میں جنتی اپنے رب کا اس طرح دیدار کریں گے جس طرح لوگ چودھویں رات کے چاند کو صاف صاف دیکھتے ہیں۔
اے ہلال عید، تو کتنا پیارا اور ہر دل عزیز ہے، تجھے ایک نظر دیکھنے کے واسطے بچے بوڑھے سب بیقرار رہتے ہیں۔ کمزور نظر والے دور بین کا سہارا لے کر تیری ایک جھلک پانے کو تڑپتے رہتے ہیں، اگر خدا نخواستہ موسم ابرآلود ہوگیا، اور تو مارے شرم کے بدلیوں کی اوٹ میں چھپا رہا تو تیرے چاہنے والے تیرے بارے میں خبریں سننے کے مشتاق رہا کرتے ہیں، اور جب تک تیرے بارے میں مطمئن نہیں ہوجاتے انھیں کوئی چیز اچھی نہیں لگتی۔ اس کے لیے پورے ملک کی ہلال کمیٹیوں سے مربوط ہوکر تیری خیریت معلوم کرنے کے لیے بے چین رہتے ہیں۔ گویا ڈوبے ہوئے چاند کو نکال کر ہی دم لیں گے ،کیا تیری خوبئ قسمت اور کیسی تیری شان محبوبیت ہے۔
اے عید کے چاند ، تیری ایک جھلک دیکھ کر دنیا میں رونق آجاتی ہے، مسرتوں کے ہجوم سے ہنگامہ آرائیاں شروع ہوجاتی ہیں، قسم قسم کے لذیذ پکوان اور طرح طرح کی عیدی غذاؤں کی خوشبوؤں سے دل و دماغ معطر ہوجاتا ہے، تو گھر گھر خوشیوں کی سوغات بانٹنے آتا ہے، غربا و مساکین کے گھروں میں صدقۂ فطر کی صورت میں تحائف لے کر وارد ہوتا ہے، بدن پر نئے نئے کپڑے اور دل فزا خوشبوؤں سے گلی کوچوں کو مشک بار بنا دیتا ہے، بچوں کی جیبوں کو عیدیوں سے بھر دیتا ہے، انھیں جگہ جگہ سیر و تفریح کا موقع فراہم کرتا ہے، رشتہ داروں کو آپس میں ملنے ملانے اور قریب کرنے کا ذریعہ بنتا ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ تو عید کا مسرت بھرا دن لاکر روزہ داروں اللہ تعالیٰ کا مہمان بنا کر طرح طرح کی نعمتوں سے نواز کر ان کی گناہوں کی بخشش کا وسیلہ بنتا ہے۔ تیرا آنا مبارک، تیرا چمکنا مبارک۔
تو بانٹتا رہے خوشیاں خدا کرے اے چاند
تری چمک سے اجالا ہراک گھر میں ہو
1 Comments
ماہنامہ الفاظ ہند آن لائن مدیر السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
ReplyDeleteمیرے مضمون عید کا چاند کی اشاعت پر آپ کا بہت بہت شکرگزار ہوں ۔ جزاک اللہ خیرا ۔
انصار احمد معروفی