Ticker

6/recent/ticker-posts

قبیلہ اطباض (افسانچہ) ✍️ ریحان کوثر

قبیلہ اطباض

(افسانچہ)

✍️ ریحان کوثر


کسی زمانے میں ’اطباض‘ نامی ایک قبیلہ ہوا کرتا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اُس قبیلے میں تفریق پیدا ہو گئی اور کل بیس فرقے وجود میں آگئے۔ دھیرے دھیرے ان کی عبادت گاہیں بھی الگ الگ قائم کی گئی۔ جب ان کا سب سے بڑا تہوار آتا تو سارے فرقے یہ تہوار بڑے ہی عقیدت و احترام سے مناتے۔ قبیلے کا سالانہ میلہ آبادیوں سے دور مقدس دریا کے کنارے پر لگایا جاتا۔

آخری رات میلے کے اختتام پر تمام فرقے الگ الگ بیٹھ کر اپنے قبیلے کی فلاح و بہبود کے لیے دعائیں کرتے۔ دریا کنارے اس رات کل بیس حلقے تھوڑی تھوڑی دور پر بنائے جاتے۔

اُس رات سارے دعاؤں میں مشغول تھے۔ چاروں طرف سکوت طاری تھا.... تبھی دور کہیں سے کسی کے چلانے کی آواز آئی....! دراصل اُس رات نیلی آنکھوں والے ایک نوجوان جس کا نام ’شغوف‘ تھا، اس نے ان تمام حلقوں کی لعنت و ملامت شروع کر دی اور زور زور سے چلانے لگا۔ اسے روکنے کے لیے کچھ لوگ اس کے قریب آگئے۔ شغوف سے لوگوں نے اس حماقت کی وجہ دریافت کی تو وہ گویا ہوا،

”اے میری منتشر قوم...

آؤ میرے ساتھ!

اے میری ریزہ ریزہ قوم

آؤ میرے پاس!

اے میری گمراہ ہو چکی قوم

پاس آؤ اور چلو میرے ساتھ...

اور کتنا بکھرو گے؟ یاد رکھنا اگر اسی طرح بکھرتے رہے تو وہ دن دور نہیں جب ہمارا قبیلہ پوری طرح ختم ہو جائے گا۔ اے میری پیاری قوم ایک ہو جاؤ ایک....“

اس کی پُرجوش تقریر اور شعلہ بیانی اسی طرح جاری رہی اور ہر حلقے سے کچھ کچھ افراد اس کی جانب آتے گئے اور اب یہاں بھی کافی افراد جمع ہو گئے۔ نیلی آنکھوں والے اس نوجوان شغوف کی تقریر طلوع آفتاب تک جاری رہی۔ لیکن قبیلے کی روایت کے مطابق آخری رات کو سورج کے طلوع ہوتے ہی قبیلے کے لوگ اپنی اپنی آبادیوں کی طرف نکل گئے...

دیکھتے ہی دیکھتے ایک برس گزر گیا....

آج پھر وہی مقدس تہوار کی آخری رات تھی۔ مقدس دریا کے کنارے تمام حلقے بڑی ہی عقیدت کے ساتھ دعاؤں میں مشغول تھے اور قبیلے اطباض کی فلاح و بہبود کے لیے دعائیں مانگ رہے تھے۔

لیکن! اس مرتبہ وہاں حلقوں کی تعداد اکیس ہو گئی تھی اور شغوف کے نئے حلقے میں سب سے زیادہ رونق تھی.... سارے دعاؤں میں مشغول تھے ۔ چاروں طرف سکوت طاری تھا.... تبھی دور کہیں سے کسی کے چلانے کی آواز آئی....


Post a Comment

16 Comments

  1. بہت خوب۔۔ عمدہ افسانچہ ہے ایک نیا انداز، نئی طرز تحریر۔۔

    ReplyDelete
  2. بہت شاندار افسانچہ ہے ۔۔۔۔۔
    اختتام لاجواب ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    ReplyDelete
  3. منفرد انداز ۔۔ ایک طمانچہ بکھرتے قوم کے شیرازے کے نام

    ReplyDelete
  4. بہترین علامتی افسانچہ ۔ بیشک اب بھی صفوں کو درست نہ کریں گے تو اکیسواں فرقہ بھی تشکیل پاجانے گا ۔
    معاشرہ کے عمیق مشاہدہ کا غماز افسانچہ ۔

    ReplyDelete
  5. بہت خوب جناب ۔یہی برسوں سے چلا آ رہا ہے اور شاید چلتا رہے۔

    ReplyDelete
  6. زبردست ریحان بھائی ۔
    پھر بھی

    دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہے

    لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے
    فیض احمد فیض

    ReplyDelete
  7. ایک خوبصورت اور بامعنی تحریر کے لیے مبارکباد

    ReplyDelete
  8. جب ایک اعلیٰ مقصد ہم سےگم ہو جاتا ہے تو
    ذاتی مفاد ہمارا رہنما بن جاتا ہے۔ یہی مفاد پرستی اور آپس کی ضد ہمیں گروہوں میں بانٹ دیتی ہے۔ آپ کا افسانچہ اسی حقیقت کی
    عکاسی کرتا ہے۔ بہت عمدہ پیشکش ہے۔

    ReplyDelete
  9. مبارک باد قبول کیجیے گا محترم ریحان کوثر صاحب..... افسانچے کا اسلوب بڑا ہی دل پذیر ہے

    ReplyDelete
  10. تمثیلی افسانچہ۔ موجودہ حالات پر کاری ضرب۔

    ReplyDelete
  11. خوبصورت ،منفرد ،دل کو چھو لینے والی تحریر

    ReplyDelete
  12. ماشاءاللہ! مختصر مگر جامع انداز، آپ کی تحریر میں مرض کی نشاندھی ہے اور علاج کی تجویز بھی، بے احتیاطی کے نقصانات بھی اجاگر کیے گئے ہیں احتیاط کے مثبت نتائج بھی، اس مختصر سی تحریر میں امت کی ایک طویل داخلی اختلافات اور ان کے وجوہ اسباب کو بھی سمیٹ لیا گیاہے،کل ملا کر دل کو لگتی ذہن کو جھنجوڑتی اور فکر کو چھوکر گذرنے والی تحریر ہے، ماشاءاللہ! اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔ ،

    ReplyDelete
  13. بہت خوب، مبارکباد، محمد اسرار

    ReplyDelete
  14. ماشاء اللہ سر جی
    زبردست

    ReplyDelete
  15. واہ۔ ایک منفرد انداز میں ایک بہترین افسانچہ ۔ کلائمکس زبردست ہے۔ آج ہمارا بھی یہی حال ہے۔ اللہ ہمیں متحد رہنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

    ReplyDelete