قبیلہ اطباض
(افسانچہ)
✍️ ریحان کوثر
آخری رات میلے کے اختتام پر تمام فرقے الگ الگ بیٹھ کر اپنے قبیلے کی فلاح و بہبود کے لیے دعائیں کرتے۔ دریا کنارے اس رات کل بیس حلقے تھوڑی تھوڑی دور پر بنائے جاتے۔
اُس رات سارے دعاؤں میں مشغول تھے۔ چاروں طرف سکوت طاری تھا.... تبھی دور کہیں سے کسی کے چلانے کی آواز آئی....! دراصل اُس رات نیلی آنکھوں والے ایک نوجوان جس کا نام ’شغوف‘ تھا، اس نے ان تمام حلقوں کی لعنت و ملامت شروع کر دی اور زور زور سے چلانے لگا۔ اسے روکنے کے لیے کچھ لوگ اس کے قریب آگئے۔ شغوف سے لوگوں نے اس حماقت کی وجہ دریافت کی تو وہ گویا ہوا،
”اے میری منتشر قوم...
آؤ میرے ساتھ!
اے میری ریزہ ریزہ قوم
آؤ میرے پاس!
اے میری گمراہ ہو چکی قوم
پاس آؤ اور چلو میرے ساتھ...
اور کتنا بکھرو گے؟ یاد رکھنا اگر اسی طرح بکھرتے رہے تو وہ دن دور نہیں جب ہمارا قبیلہ پوری طرح ختم ہو جائے گا۔ اے میری پیاری قوم ایک ہو جاؤ ایک....“
اس کی پُرجوش تقریر اور شعلہ بیانی اسی طرح جاری رہی اور ہر حلقے سے کچھ کچھ افراد اس کی جانب آتے گئے اور اب یہاں بھی کافی افراد جمع ہو گئے۔ نیلی آنکھوں والے اس نوجوان شغوف کی تقریر طلوع آفتاب تک جاری رہی۔ لیکن قبیلے کی روایت کے مطابق آخری رات کو سورج کے طلوع ہوتے ہی قبیلے کے لوگ اپنی اپنی آبادیوں کی طرف نکل گئے...
دیکھتے ہی دیکھتے ایک برس گزر گیا....
آج پھر وہی مقدس تہوار کی آخری رات تھی۔ مقدس دریا کے کنارے تمام حلقے بڑی ہی عقیدت کے ساتھ دعاؤں میں مشغول تھے اور قبیلے اطباض کی فلاح و بہبود کے لیے دعائیں مانگ رہے تھے۔
لیکن! اس مرتبہ وہاں حلقوں کی تعداد اکیس ہو گئی تھی اور شغوف کے نئے حلقے میں سب سے زیادہ رونق تھی.... سارے دعاؤں میں مشغول تھے ۔ چاروں طرف سکوت طاری تھا.... تبھی دور کہیں سے کسی کے چلانے کی آواز آئی....
16 Comments
بہت خوب۔۔ عمدہ افسانچہ ہے ایک نیا انداز، نئی طرز تحریر۔۔
ReplyDeleteبہت شاندار افسانچہ ہے ۔۔۔۔۔
ReplyDeleteاختتام لاجواب ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Lajawab ending altimate
Deleteمنفرد انداز ۔۔ ایک طمانچہ بکھرتے قوم کے شیرازے کے نام
ReplyDeleteبہترین علامتی افسانچہ ۔ بیشک اب بھی صفوں کو درست نہ کریں گے تو اکیسواں فرقہ بھی تشکیل پاجانے گا ۔
ReplyDeleteمعاشرہ کے عمیق مشاہدہ کا غماز افسانچہ ۔
بہت خوب جناب ۔یہی برسوں سے چلا آ رہا ہے اور شاید چلتا رہے۔
ReplyDeleteزبردست ریحان بھائی ۔
ReplyDeleteپھر بھی
دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے
فیض احمد فیض
ایک خوبصورت اور بامعنی تحریر کے لیے مبارکباد
ReplyDeleteجب ایک اعلیٰ مقصد ہم سےگم ہو جاتا ہے تو
ReplyDeleteذاتی مفاد ہمارا رہنما بن جاتا ہے۔ یہی مفاد پرستی اور آپس کی ضد ہمیں گروہوں میں بانٹ دیتی ہے۔ آپ کا افسانچہ اسی حقیقت کی
عکاسی کرتا ہے۔ بہت عمدہ پیشکش ہے۔
مبارک باد قبول کیجیے گا محترم ریحان کوثر صاحب..... افسانچے کا اسلوب بڑا ہی دل پذیر ہے
ReplyDeleteتمثیلی افسانچہ۔ موجودہ حالات پر کاری ضرب۔
ReplyDeleteخوبصورت ،منفرد ،دل کو چھو لینے والی تحریر
ReplyDeleteماشاءاللہ! مختصر مگر جامع انداز، آپ کی تحریر میں مرض کی نشاندھی ہے اور علاج کی تجویز بھی، بے احتیاطی کے نقصانات بھی اجاگر کیے گئے ہیں احتیاط کے مثبت نتائج بھی، اس مختصر سی تحریر میں امت کی ایک طویل داخلی اختلافات اور ان کے وجوہ اسباب کو بھی سمیٹ لیا گیاہے،کل ملا کر دل کو لگتی ذہن کو جھنجوڑتی اور فکر کو چھوکر گذرنے والی تحریر ہے، ماشاءاللہ! اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔ ،
ReplyDeleteبہت خوب، مبارکباد، محمد اسرار
ReplyDeleteماشاء اللہ سر جی
ReplyDeleteزبردست
واہ۔ ایک منفرد انداز میں ایک بہترین افسانچہ ۔ کلائمکس زبردست ہے۔ آج ہمارا بھی یہی حال ہے۔ اللہ ہمیں متحد رہنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
ReplyDelete