Ticker

6/recent/ticker-posts

اے رمضان المبارک ✍️ انصار احمد معروفی

اے رمضان المبارک
✍️ انصار احمد معروفی

اے رمضان، ہم نے سنا کہ تو ہم سے رخصت ہونے والاہے، تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مہمان بن کر ہمارے یہاں آیا تھا، مہمان تو یوں بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت بن کر آتے ہیں، تو تو رحمت کے ساتھ مغفرت اور جہنم سے آزادی دلانے کی نوید بھی لے کر آیا تھا، تیری آمد سے دن اور رات کا ماحول ہی بدل گیا تھا، سونے اور جاگنے کے ساتھ کھانے پینے اور عبادت میں بھی خوشگوار تبدیلی آگئی تھی، دن میں کھانے پینے پر تو نے پابندی عائد کردی تھی، حتیٰ کہ ہم بچے بھی اس عادت سے مانوس ہوگئے تھے، اور ہمیں بھی گھر والوں کے ساتھ ہی کھانا پینا اچھا لگنے لگا تھا، اگر چہ اپریل کی سخت گرمی اور تپش کا زمانہ تھا، گھر کے لوگ ہماری خواہش کے باوجود روزہ رکھنے سے شفقتا منع کررہے تھے، مگر ہم لوگوں نے جب اپنی ضد دکھائی تو انھوں نے ہمارے اصرار کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے۔اس طرح زندگی میں پہلی بار روزہ دار ہونے کی سعادت حاصل ہوئی، ہوا یوں کہ ہم نے ماں سے سونے سے پہلے کہہ دیا تھا کہ ہم بھی سحری کھانے اٹھیں گے، جگا دیجیے گا، جواب تسلی بخش نہیں ملا، مگر اسی کی نیند سونے اور شوق کے مارے سحری کے وقت جب ذرا آواز بلند ہوئی تو ہم چٹ سے اٹھ کر آنکھ ملتے بیٹھ گئے، اور جلدی جلدی ہاتھ منہ دھوکر سحری کھانے کو تیار ہوگئے، مجبوراً گھر والوں نے روزہ رکھنے اور نیت کرنے کا طریقہ بتایا، اور کہا کہ دن میں اگر بھوک پیاس لگے تو صبر کرنا، اے رمضان تو گواہ ہے کہ میں نے بالکل صحیح روزہ رکھا، ماں کو اگر چہ مجھ پر ترس آرہا تھا، مگر انھوں نے کہا جب روزہ کی نیت کرلی ہے تو اسے پورا کرنا، اور بتایا کہ صحابہ کرام اپنے بچوں کو روزہ کی عادت ڈالنے کے لیے روزہ رکھواتے تھے، بلکہ دودھ پلانے والی عورتیں بھی اپنے بچوں کو دن میں دودھ پلانے میں احتیاط کرتی تھیں، اب والد صاحب بھی خوش ہوگئے تھے ورنہ وہ تو میرے روزے کے خلاف تھے، مگر اب انھوں نے مجھے روزہ مکمل کرنے پر انعام دینے کا وعدہ کرلیا، اور کہا کہ بیٹا جو تم کہوگے وہی پسندیدہ چیز افطار کے لئے منگوائیں گے، اس طرح میرے پہلے روزہ کشائی کا وقت آیا، اس دن معلوم ہوا کہ روزہ کسے کہتے ہیں؟ اور روزہ کی تکمیل میں اللہ تعالیٰ کتنی مدد فرماتے ہیں، دنیا میں جو انعام ملا وہ تو ملا ہی، اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ وہ اس کا اجر وثواب آخرت میں بھی دے گا۔
اے میرے پیارے رمضان، افطار کی خوشی اور اس کی برکتیں غیر رمضان میں کہاں مل سکتی ہیں؟ تیری برکت سے ہمیں مل جل کر ایک دسترخوان پر ایک ساتھ کھانے پینے کا ایسا موقع ملا جس سے ہم نے اجتماعیت کے آداب اور طور طریقے سیکھے، کس طرح چھوٹوں کو بڑوں کے ساتھ رہنا اور کھانا پینا چاہیے؟ زندگی کے یہ سب سلیقے تیری برکت سے ہمیں ملے۔
اے رمضان، یہ تیرا تیسرا عشرہ ہے، جس میں تو شب قدر اور اعتکاف لے کر آیا ہوا ہے، اور ہم پر اپنی ساری آسمانی دولت نچھاور کررہا ہے، کیا یہ تمام تحفے دے کر تو ہم سے رخصت ہوجائے گا؟ تیرے آنے سے کتنی رونق تھی، کیا روحانی سماں بندھا رہتا تھا، افطار کے وقت کتنی چہل پہل رہتی تھی، اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی لذیذ نعمتوں سے دسترخوان سجے رہتے تھے، تیری آمد پر اللہ تعالیٰ روزہ داروں کے رزق میں کتنا اضافہ کردیا کرتا تھا، جسے ہم بچے بھی کھلی آنکھوں دیکھتے تھے اور ان نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے تھے، آہ اے رمضان، اب تو ان تمام نعمتوں، برکتوں اور رحمتوں کے ساتھ ہم سے رخصت ہونے کے لیے پر تول رہا ہے، کتنا یاد آئے گا وہ منظر جب رمضان کے بعد پھیکی پھیکی شام آئے گی کہ کل اس وقت ہم لوگ امی اور بہنوں کی جانب سے تیار کی گئی افطاریاں لے کر مسجدوں کے لیے ادب و احترام کے ساتھ جایا کرتے تھے،سر پر ٹوپیاں، پاؤں میں جوتیاں اور دلوں میں دعائیں لینے کا شوق برپا رہتا تھا، مؤذن صاحب محبت اور شوق سے افطاریاں وصول کرکے ہمیں بھی تبرک عنایت کرتے اور دعاؤں سے نوازتے، ہماری طرح اور بچے بھی طباق میں قسم قسم کی اشیا لےکر خوبصورت پردہ پوش کے ساتھ بصد شوق حاضر ہوتے، لگتا تھا جیسے آسمان کے خوشنما تارے ہم بچوں کی شکل و صورت میں موتیوں کی طرح بکھرے ہوئے ہیں۔ اور روحانی ماحول کی رونق میں اضافہ کررہے ہیں۔
اے رمضان، تونے سارے مسلمانوں کو ایک نظام الاوقات کا پابند بنا دیا تھا، اور انھیں ایک اور نیک بننے کی راہ ہموار کردی تھی، نیک لوگ اور نیک ہوگئے تھے، جو نہیں تھے وہ بھی سنبھل گئے تھے، ہم بچوں کی تو رمضان ہی میں گویا عید ہوگئی تھی، بڑوں کی تعداد کے برابر ہم لوگ بھی مسجدوں میں پائے جاتے تھے، ہماری شرارتیں کہاں جاتی ہیں؟ پھر بھی بڑوں کی دھمکیاں، نوجوانوں کی جھڑکیاں، اور گھر والوں کی بطور سزا گوشمالیاں ایسی تھیں کہ ہمیں ذرا سنبھل کر اور پھونک پھونک کر قدم رکھنا پڑتا تھا، اذان ہوتے ہی بلکہ اس کے پہلے ہی ہم مسجد میں حاضر ہوجاتے تھے، مگر مسجد سے باہر نکلنے میں سب سے آگے، وہ نماز تراویح کہ جس کی ادائیگی میں کچھ سست روی کے شکار حضرات آنا کانی کرتے تھے، مگر ہم بچے ہمیشہ چاق و چوبند اور مکمل تراویح کے لیے کمر بستہ رہتے تھے، اے رمضان تیرا یہ تحفہ تیرے ساتھ ہی اب رخصت ہونے کو ہے، کتنا اچھا لگتا تھا جب ہماری مائیں ہمیں شب قدر میں اپنے ساتھ ہی ہمارے مصلے بچھا کر اپنے ساتھ عبادت کرنے کے لیے کہتیں اور ہم ان کی نقل اتار تے ہوئے ان کے ساتھ معصومانہ انداز میں عبادت کرتے اور دعائیں مانگتے تھے، کیا اللہ تعالیٰ کو دعائیں مانگنا ہمارا پسند نہیں آیا ہوگا اور ہماری دعائیں قبول نہیں ہوئی ہوں گی؟ اب تیرے جانے کے بعد یہ سب خوشگوار یادیں بن جائیں گی جو ہمیشہ تیری موجودگی کا احساس دلاتی رہیں گی۔اچھا اے رمضان، ہم یہ طاقت بھی نہیں رکھتے کہ تمھیں روک لیں کیونکہ تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے آیا تھا اور اسی کے حکم سے ہم جدا ہورہا ہے۔ بس پھر جلدی آنا اور ہمارے لیے ڈھیر ساری خوشیاں لانا، اللہ تعالیٰ تیرے آنے اور جانے کو مبارک کرے۔

Post a Comment

1 Comments

  1. محترم ریحان کوثر صاحب السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
    اللّٰہ تعالیٰ کا فضل اور آپ کی عنایت ہے کہ آپ نے میرا مضمون سے رمضان کو الفاظ ہند کی خصوصی پیشکش میں شامل کیا اور میری حوصلہ افزائی کی ۔ شکریہ ۔ جزاک اللہ خیرا ۔ انصار احمد معروفی

    ReplyDelete