Ticker

6/recent/ticker-posts

کام چور لڑکے | سائیکل | انصار احمد معروفی

کام چور لڑکے
انصار احمد معروفی
درجہ 6 کے سائنس کے طلبہ میں ہر مزاج اور دماغ کے لڑکے تھے، کچھ ایسے تیز دماغ والے تھے جنھیں سائنس کے مضامین اور اس کی کار کردگی سے بہت دلچسپی تھی، ان کے مزاج میں تجسس، کھوج اور تحقیق کا جذبہ تھا، حیرت میں ڈالنے والی ہرقسم کی چیزوں میں اپنا دماغ لڑاکر اس کی تہ تک پہنچنا ان کا محبوب مشغلہ تھا، اس لیے ایسے لڑکوں سے استاد بہت خوش رہتے تھے، ان پر خاص توجہ دیتے اور جب تک بات ان کی سمجھ میں نہ آتی، وہ انھیں سمجھانے کی کوشش کرتے رہتے تھے۔
اسی کے ساتھ اس میں کچھ ایسے لڑکے بھی تھے ؛ جن کے لیے سائنس ایک مشکل مضمون تھا، جس سے دل و دماغ خشک ہوجاتا اور دماغ پر وہ ایک بوجھ بن جاتا، ان میں سے ایک دن ایک لڑکے نے کہا ”سر! کتاب تو آپ اچھی طرح سمجھا ہی دیتے ہیں، امتحان کے لیے معدنیات کے بارے میں کوئی جامع نوٹس لکھوا دیتے تو ہم بدھو لڑکے بھی امتحان میں کامیاب ہوجاتے “۔ سر نے کہا ” کیا تم لوگ اس نوٹس کے ذریعے امتحان میں کامیاب ہونا چاہتے ہو؟ یعنی تم لوگ نقل کرکے پاس ہونا چاہتے ہو “۔
انھوں نے کہا ” نہیں سر! ایسی بات نہیں، بلکہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہم اس کو اتنا یا دکرلیں کہ وہ ہمارے دل میں بیٹھ جائے اور دماغ میں نقش ہوجائے “۔ سر نے کہا ”ٹھیک ہے، چلو آج کچھ لکھ لو، سب اپنا اپنا قلم اور کاپی لے کر لکھنے کے لیے تیار ہوگئے :
بولیے سر آپ جلدی بولیے
راز جو سائنس کا ہو کھولیے
آپ کی باتوں کے ہم مشتاق ہیں
کان میں رس میٹھا میٹھا گھولیے
سر نے طلبہ کی باتوں پر مسکراتے ہوئے کتاب کے ذریعے نوٹس لکھوانا شروع کیا:
”ملک کی معاشی ترقی میں معدنیات کی بڑی اہمیت
ہے، کچھ معدنیات ہمارے کارخانوں، مشینوں اور گاڑیوں کو چلانے کے لیے ضروری طاقت پہنچاتی ہیں، اور کچھ گھر بنانے اور بجلی وغیرہ کے سامان بنانے میں مدد کرتی ہیں، یورینیم اور تھوریم تابکاری معدنیات ہیں، ان میں لوہا، مینگنیز، تانبہ، سونا، چاندی، المونیم، ابرک، کوئلہ اور پیتل وغیرہ بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔
کچھ معدن کو دوسری معدن میں ملانے سے نئی چیز بن جاتی ہے، جیسے تانبہ اور جستہ کو ملائیں تو پیتل بن جائے، جس سے برتن، ہار، مشین کے کَل پرزے اور زیورات وغیرہ بنائے جاتے ہیں، لوہا اور ٹن کی دھات کو پگھلاکر ملانے سے سکے، زیورات، گھنٹہ، میڈل اور برتن بنائے جاتے ہیں، المونیم اور تانبہ کو ایک دوسرے میں ملانے سے ہوائی جہاز وجود میں آتے ہیں، اس کے علاوہ بھی بہت سی چیزیں باہم ملانے سے بنائی جاتی ہیں، جن کا سائنسی ترقی میں بہت ہاتھ ہے “۔
سر نے اتنا ہی لکھوایا تھا کہ وہ کام چور لڑکے ؛ جنھیں اس مضمون سے دلچسپی نہیں تھی، کہنے لگے ” سر! اب بس کرئیے، ایک ہفتہ کی یہ خوراک ہوگئی ہے، ہم اس کو جب تک مکمل طور پریاد نہ کرلیں، آگے نہ لکھوائیں“۔
سر نے تڑک کر کہا ” ایک ہفتہ نہیں، اتنا نوٹس تمھیں صرف ایک دن میں یاد کرکے سنانا ہوگا، اور بہتر ہے کہ تم لوگ یاد کرنے کے بجائے اسے ذہن نشین کرلو، پھر میں کل اور چیزیں لکھوا دوں گا “۔ ذہین لڑکوں نے زور سے کہا ” ٹھیک ہے سر! اس پر عزت بچانے کے لیے کام چور لڑکوں نے بھی آہستہ سے کہا ” اچھا ٹھیک ہے سر…“


سائیکل
انصار احمد معروفی
جب نہ موٹر سائیکل تھی، سائیکل بس تھی جہاز
کار پر اتنا نہیں تھا جس قدر تھا اس پہ ناز
شوق اس کو سیکھنے کا دل میں تھا اتنا جما
زور تھا سیلاب جیسا تھمتے تھمتے جو تھما
تب نہیں آتی تھی چھوٹی سائیکل بازار میں
اشتہار اس کا پڑھا ہم نے نہ تھا اخبار میں
چھوٹا قد ہو، سائیکل ہو جب بڑی ہے مسئلہ
پھر بھی اس کے سیکھنے کا رک نہ پایا سلسلہ
گرتے پڑتے چوٹ کھاتے سیکھنے جاتے تھے ہم
مار گھر والوں کی بھی اوپر سے کچھ کھاتے تھے ہم
پیر زخمی تھے مگر پیڈل چلاتے بار بار
سوچتے تھے ہم سے آگے بڑھ نہ پائے کوئی کار
دن میں اتنی مشق کرتے کرتے وہ دن آگیا
رات کو بھی خواب میں رہنے لگا تھا تذکرہ
دور ہم اتنی نکل جاتے کہ بس پوچھو نہیں
جب سناتے ہم مسافت، تو نہ کچھ کرتے یقیں
سائیکل بھی ہوگئی تھی مجھ سے کچھ مانوس بھی
دیکھ کر ہی مجھ کو وہ چلنے کو بس تیار تھی
صاف کرتا پونچھتا ہفتے میں دھوتا تھا اسے
تیل اس میں ڈال کر ہلکی بناتا تھا اسے
آئی موٹر سائیکل تو بے وفائی آگئی
ایسا لگتا تھا یہ گاڑی اس کو آکر کھاگئی
اب جب اس کو دیکھتا ہوں گھورتی ہے وہ مجھے
جیسے کہتی ہو ”تو بھولا، میں نہیں بھولی تجھے


Post a Comment

0 Comments