Ticker

6/recent/ticker-posts

دوستی | پرویز انیس

دوستی
پرویز انیس
ایک چرواہا تھا۔ اس کا مالک ایک ظالم آدمی تھا۔ چرواہا اس سے بہت خوف زدہ رہتا لیکن کام کرنے کے لیے مجبور تھا کیونکہ اس کی گزر بسر کا بس یہی ذریعہ تھا۔ وہ روز صبح بکریوں کو لے کر جنگل کی طرف چلا جاتا۔ بکریوں کو چرتا ہوا چھوڑ کر وہ ایک بوڑھے برگد کے درخت کے نیچے بیٹھ جاتا۔
وہ دن بھر وہاں بیٹھا بانسری بجاتا رہتا۔ بکریاں بھی اس کی دُھن سے مانوس تھیں۔ جب شام ہوتی تو وہ ایک خاص دھن بجاتا اور ساری بکریاں پیڑ کے قریب جمع ہوجاتیں۔
روز کی طرح ایک دن چرواہے نے شام کے وقت وہی خاص دُھن بجائی۔ بکریاں پیڑ کے قریب جمع ہوگئیں۔ چرواہے نے ایک نظر بکریوں پر ڈالی تو محسوس کیا کہ ایک بکری کم ہے۔ وہ بہت پریشان ہوا کیونکہ ایسا پہلی بار ہوا تھا۔ وہ بکری کو بہت دیر تک ڈھونڈتا رہا لیکن بکری کہیں نہیں ملی۔ آخرکار وہ تھک کر اسی بوڑھے برگد کے نیچے نڈھال سا بیٹھ گیا۔ اس پر مالک کا خوف طاری ہونے لگا۔ وہ بری طرح سہم گیا۔ اسے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے۔ نہ چاہتے ہوئے بھی اس کا ہاتھ بانسری پر گیا۔ وہ آنکھوں میں آنسو لیے بانسری بجانے لگا۔ اس نے آج عجیب اُداس دُھن چھیڑی جس کو سُن کر وہاں موجود بکریوں کی آنکھوں سے بھی آنسو جاری ہوگئے اور چرواہا بھی رونے لگا۔
تبھی اچانک ایک بوڑھا جِنّ نمودار ہوا جسے دیکھ کر چرواہا اور بکریاں سہم گئے۔ چرواہا وہاں سے بھاگنے کی کوشش کر ہی رہا تھا کہ جِنّ نے بڑی محبّت سےکہا،
’’سنو دوست! میں اس پیڑ پر ہی رہتا ہوں اور روز تمھاری بانسری کی دُھن سنتا ہوں اور محظوظ ہوتا ہوں لیکن تم نے آج ایسی دُھن چھیڑی ہے کہ میرا رو رو کر برا حال ہوگیا۔ میَں مجبور ہوگیا تمھارے سامنے آنے کے لیے۔ بتاؤ میرے دوست کس لیے اُداس ہو۔‘‘
چرواہا بوڑھے جن کی باتیں سن کر مطمئن ہوگیا اور اپنی پریشانی بتائی۔ بات سنتے ہی بوڑھا جِنّ وہاں سے غائب ہوگیا۔ تھوڑی دیر بعد جِنّ دوبارہ حاضر ہوا، ہاتھوں میں وہی بکری لیے۔ بکری کو دیکھتے ہی چرواہا بہت خوش ہوا اور اس نے بانسری پر ایک خوبصورت دُھن چھیڑ دی جسے سُن کر سب خوشی سے جھوم اُٹھے۔
اب جِنّ اور چرواہے کی دوستی ہوگئی۔
ایک دن چرواہا روز کی طرح بکریاں لے کر آیا تو دیکھا جِنّ اُداس بیٹھاتھا۔ چرواہے نے وجہ پوچھی تو جِنّ کہنے لگا،
’’ملک کے راجا کے لوگ آئے تھے۔ وہ یہاں راجا کے حکم سے بہت بڑا محل بنانے والے ہیں۔ اس لیے اس جنگل کے بہت سارے درختوں کو کاٹا جائے گا اور ان درختوں کے ساتھ میرا یہ درخت بھی کاٹ دیا جائے گا۔ ایسا نہیں ہے کہ میَں دوسری جگہ رہ نہیں سکتا لیکن اس درخت سے میرا بہت پرانا ناطہ ہے اور اس درخت سے میری بہت خوبصورت یادیں جڑی ہیں بس اس لیے میَں اُداس ہوں۔‘‘
چرواہے نے غور سے بوڑھے جِنّ کی باتیں سُنیں اور وہ بھی غمگین ہوگیا۔ لیکن بے چارہ کر کیا سکتا تھا پھر بھی اس نے دن بھرجِنّ کو اپنی بانسری کی دُھنوں سے خوش رکھا۔
شام کو جب چرواہا واپس لوٹنے لگا تو اس نے محسوس کیا کہ جِنّ پھر اُداس اور سوچوں میں گُم ہے۔ وہ پورا راستہ جِنّ کے بارے میں سوچتا گاؤں پہنچا تو دیکھا راجا کا آدمی اعلان کررہا ہے، ’’ سُنو،سُنو، سُنو، کل راج دربار میں سنگیت سمراٹ کا مقابلہ ہوگا۔ جس میں دور دراز ملکوں سے سنگیت کے مہارتی اپنی کلا کا مظاہرہ کرنے آئیں گے۔ جس کسی کو یہ مقابلہ دیکھنا ہے اسے اجازت ہے۔‘‘
یہ اعلان سُن کر چرواہا رُک کر کچھ دیر سوچتا رہا۔ پھر تیزی سے گھر کی جانب چل پڑا۔ گھر پہنچ کر اس نے بکریوں کو باندھا اور مالک سے مقابلہ میں جانے کے لیے چھُٹّی مانگی۔ مالک نے بڑی مشکل سے چھُٹّی دی۔ چرواہا رات میں ہی گاؤں کے کچھ لوگوں کے ساتھ مقابلہ دیکھنے نکل گیا۔
صبح وہ محل سے لگے ایک میدان میں پہنچےجہاں مقابلے کی ساری تیاری مکمل ہوچکی تھی۔ میدان کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ ایک اونچی جگہ پر راجا اپنے تخت پر بیٹھا ہوا تھا۔ اس کے سامنے شاہی کرسیوں پر مقابلہ میں حصّہ لینے آئے فنکار بیٹھے تھے۔
مقابلہ شروع ہوا۔کسی نے طبلہ، کسی نے سارنگی، کسی نے شہنائی کا اعلیٰ نمونہ پیش کیا لیکن سب سے زیادہ متاثر سارنگی بجانے والے نے کیا۔ راجا بھی اس سے بہت متاثر تھا۔ عین ممکن تھا کہ اس کے سر جیت کا سہرا باندھ دیا جاتا۔ تبھی مجمع سے چرواہے کی بانسری کی سُریلی آواز اٹھی۔ سارے لوگ اس آواز کی طرف متوجہ ہوگئے۔ اس دُھن نے دھیرے دھیرے سب کے دل کو اپنے قبضہ میں کرلیا۔ سب کے چہرے پر خوشی کے تاثرات تھے اور ہونٹوں پر مسکراہٹ۔ تبھی چرواہے نے دُھن بدلی اور راجا کے ساتھ ساتھ سبھی لوگوں کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔
چرواہے نے بانسری بجانا بند کیا تو مجمع پر بہت دیر تک سنّاٹا چھایا رہا۔ چرواہے کو راجا کے سامنے پیش کیا گیا۔ راجا نے جیت کا تاج چرواہے کے سر پر رکھنا چاہا۔ چرواہے نے عاجزی سے کہا،
’’ مہاراج، میَں یہاں اس تاج کے لیے نہیں آیا ہوں۔ میَں اپنے دوست جِنّ کے لیے آیا ہوں۔‘‘ اور اس نے جِنّ کی پوری بات راجا کو بتائی۔
راجا نے چرواہے کی بات مان لی۔ اپنا محل دوسری جگہ بنانے کا حکم دیا اور اعلان کیا کہ اب اس مُلک میں کوئی درخت نہ کاٹا جائے۔ راجا نے جیت کا تاج چرواہے کے سر پر رکھا اور اسے اپنے خاص لوگوں میں شامل کرلیا۔
جِنّ اور چرواہے کی دوستی کے قصّے دُور دُور تک مشہور ہوگئے۔

Post a Comment

0 Comments