اخلاقی اعتبار سے انسانی سلوک یارویّے کی دوسطحیں ہو سکتی ہیں۔ پہلی یہ کہ جو ہمارے ساتھ اچھا سلوک کرے ہم بھی اُس کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آئیں۔ اگر کوئی ہمارے ساتھ بدسلوکی کرتاہے تو ہم بھی اُس کے سا تھ بدسلوکی کریں۔
یعنی نظیراکبر آبادی کے الفاظ میں ؎
نیکی کرے نیکی ملے، بد سے بدی کی بات لے
دُنیا کا سودا نقد ہے اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے
یہ روّیہ اخلاق کی کمتریں سطح ہے۔ اور اس کی جھلکیاں انسانی معاشرے میں شب و روز دکھائی دیتی ہیں۔ بلکہ ہمارے معاشرے کا پورا ڈھانچہ اسی اخلاق اور جوابی اخلاق پر قائم نظر آتا ہے۔
دُنیا کا ہر دھرم اور مذہب انسان کی انہیں سرکش جبلّتوں کو قابو میں رکھنے کا درس دیتا ہے۔ جسے ہم ضابطۂ اخلاق کہتے ہیں۔ ’اخلاق‘ انسانیت کی ریڑھ کی ہڈّی ہے۔ ہمارے سارے معاملات، رشتے ناطے، دوستیاں، تعلقات، محبتّیں اور قربتیں سب اخلاق کی زمین پر ٹکی ہیں۔ جب اخلاق کمزور پڑنے لگتے ہیں تو سمجھ لینا چاہئے کہ معاشرہ تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔
ہم فی زمانہ مہذّب اُسی کو کہتے ہیں جو ’خوش اخلاق‘ ہو۔ اس کی ادنیٰ مثال کسی کو سلام کرنا یا کسی کا شکریہ ادا کرنا ہے۔ بظاہر دونوں باتیں خوش اخلاقی کا بہت ادنیٰ نمونہ ہیں مگر ان کے اثرات بڑے دُور رس ہوتے ہیں۔ جب ایک شخص کسی دوسرے کو سلام کرتا یا نمسکار کہتا ہے تو انجانے طور پر دونوں چند لمحوں کے لئے ہی سہی ایک انسانی رشتے میں بندھ جاتے ہیں۔ اسی طرح جب کسی کا شکریہ ادا کرتے ہیں تو مقابل کے ذہن میں عارضی طورپر ہی سہی ایک خوشگوار تاثر چھوڑ جاتے ہیں۔ ہر دو انسانو ں کے درمیان غیریت اور بیگانگی کا پردہ ہوتا ہے۔ سلام اور شکریہ دراصل اُس پردے کو چاک کردیتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں ہم کسی کو سلام کرکے اپنی عجز و انکساری کا اعلان بھی کرتے ہیں۔ قرآن میں ارشاد ہوا ہے۔’’خُدا کے بندے وہ ہیں جو زمین پر عاجزی کے ساتھ چلتے ہیں۔ ‘‘
سلام ہو یا نمسکار اُسی بلند اخلاقی کی جانب پہلا قدم ہے۔ بلند اخلاق یا اعلیٰ کردار کا راز حضور اکرمؐ کی اس حدیث میں مضمر ہے۔ آپؐ فرماتے ہیں۔ ’’جو تم سے کٹے تم اُس سے جُڑو، جو تم پر ظلم کرے تم اُس کو معاف کردو۔ اور جو تمہارے ساتھ بُرا سلوک کرے تم اس کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔‘‘ یعنی خوش خلقی یا حُسنِ سلوک یک طرفہ ہوتا۔ کسی دوسرے سے نیک سلوک کی توقع کے بغیر اُس کے ساتھ نیک سلوک کرنا ہی اعلیٰ ظرفی کا فطری وظیفہ ہے۔
تلوار اور بندوق سے دشمن کو شکست تو دی جا سکتی ہے مگر اُسے اپنا دوست نہیں بنایا جا سکتا۔ جبکہ حُسنِ اخلاق میں ایسی طاقت ہے جو دشمن کو اندر سے زیر کرتی ہے اور اُسے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے آپ کا گرویدہ بنا دیتی ہے۔ حضرت علیؓ کا ایک واقعہ اس ضمن میں ایک روشن مثال کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایک بار حضرت علیؓ نے ایک مخالف کو پچھاڑ دیا اور اُس کے سینے پر سوار ہوکر چاہتے تھے کہ اُس کا سر قلم کردیں۔ اُس بدبخت نے آپ کے چہرۂ مبارک پر تھوک دیا۔ اس پر شیرِ خُدا نے تلوار ہاتھ سے ڈال دی اور اُس کو چھوڑ کر الگ ہو گئے۔ وہ شخص آپ کے اس رویّےپر حیران رہ گیا۔ اُس نے پوچھا۔آپ نے ایسا کیوں کیا۔ آپ نے فرمایا۔ میری تجھ سے لڑائی صرف اللہ کی خاطر تھی لیکن تُو نے میرے منہ پر تھوک کر مجھے غصّہ دلادیا۔ اس لئے اب اگر میں تجھے قتل کرتا تو ذاتی انتقام میں شمار ہو جاتا۔ اور میں کسی سے ذاتی انتقام نہیں لینا چاہتا۔ مخالف آپ کی یہ بات سُن کر اس قدر متاثر ہوا کہ آپ کے ہاتھ پر ایمان لے آیا۔ اس طرح جو کام تلوار نہیں کرسکتی تھی اُسے حضرت علیؓ کی حلیمی اور بلند اخلاقی نے پورا کردیا۔ مولانا رومیؒ اسی بات کو اس طرح بیان فرماتے ہیں۔
تیغِ حلم از تیغِ آہن تیز تر
بل ز صد لشکر ظفر انگیز تر
یعنی نرمی اور رواداری کی تلوار لوہے کی تلوار سے زیادہ تیز بلکہ فتح و کامرانی میں سو لشکروں سے بڑھ کر ہے۔ اسی لئے تو وہ نو برس کا لڑکا جس کا نام عبدالقادرجیلانیؒ تھا۔اپنے حسنِ کردار کی طاقت سے ڈاکوؤں کے قلوب پھیر دیتا ہے۔ اور تمام ڈاکو گناہوں سے توبہ کر لیتے ہیں۔ جب حسنِ اخلاق میں پیغمبرانہ شان پیدا ہوجاتی ہے تو پھر انسانی ’عمل‘ پوری انسانیت کی فلاح کا آئینہ بن جاتا ہے اور اُس کا ہر قدم جُملہ انسانوں کی نجات کی جانب اُٹھتا ہے۔ وہ اخلاقی طور پر اس قدر بلند اُٹھ جاتا ہے کہ سارے جہاں کے درد کو اپنے دِل میں محسوس کرسکتا ہے۔
’’بھاگوت‘‘ میں ا س بات کو دوسرے ڈھنگ سے پیش کیا گیا ہے کہ ’’میری خواہش یہ ہے کہ میں تکلیف میں مبتلا ساری مخلوق کے دُکھ درد لے لوں اور اُن میں سما جاؤں۔ تاکہ اُنہیں غم سے نجات مِل جائے۔‘‘ کہتے ہیں مہا دیو شنکر نے بھی انسانی بقا اور اُس کی نجات کی خاطر زہر پیا تھا۔ جب انسان حُسنِ سلوک کو اپنی فطرتِ ثانیہ بنا لیتا ہے تو پھر وہ جھوٹ کا جواب راستی سے، ظلم کا جواب صبرو ضبط سے اور شر کا جواب خیر سے دیتا ہے۔
حضرت عیسیٰؑ نے بھی کم و بیش ایسی ہی بات کہی تھی کہ جب کوئی تمہارے ایک گال پر طمانچہ مارے تم دوسرا گال پیش کر دو۔ غالباً مہاتما گاندھی بلند اخلاقی کے اس نکتے سے پوری طرح واقف تھے اسی لئے اُنہوں نے انگریزوں کے ظلم و جبر کے مقابلے میں ’اہِنسا‘ کا ہتھیار اُٹھایا اور ایک ایسی لڑائی لڑی جس کی مثال انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔اہِنسا کا جنم حُسنِ اخلاق کے بطن سے ہوتا ہے۔ اور حُسنِ اخلاق سے بڑھ کر انسانیت کا کوئی معیار نہیں۔ خوش خلقی انسانی کردار کا عطر ہے جس کی خوشبو سے پوری انسانیت مہک جاتی ہے۔ یہ صرف دو انسانوں کے درمیان کا معاملہ نہیں۔ بلکہ ایک ایسی کڑی ہے جو دو قوموں، دو طبقوں، دو ملکوں بلکہ اُس سے بھی آگے انسانوں اورخُدا کو ملاتی ہے۔ انسان جب اخلاق کے اس بلند مرتبے پر پہنچ جاتا ہے تو پھر وہ ایک ایساپُر نور نقطہ بن جاتا ہے جہاں تمام رشتوں کی لکیریں آکر مِل جاتی ہیں۔
الفاظ اسپیشل
ماہنامہ الفاظ ہند
فروری 2022ء

0 Comments