Ticker

6/recent/ticker-posts

خوشی| ڈاکٹر یاسمین اختر

خوشی
ڈاکٹر یاسمین اختر

الیاس شو روم میں اٹھائیس ہزار روپئے ادا کر کے گھر آیا۔
بارہ سالہ بیٹی خوشی بہت خوش تھی۔ پاپا واشنگ مشین لا رہے ہیں۔ اب امی کو ہاتھوں سے کپڑے نہیں دھونے پڑیں گے۔
مئی کا مہینہ تھا۔ایک درازقد آدمی میلے کچیلے کپڑے میں ملبوس واشنگ مشین لے کر آیا۔
ٹھیلنے والے کے مزدوری مانگنے پر الیاس الجھ پڑا کہنے لگا۔
”جس نے یہاں بھیجا ہےاسی سے مزدوری لینا۔میں تمھیں ایک پائی بھی نہیں دوں گا۔“
ٹھیلے والے نے خوشامد کی پھر بھرائی سی آواز میں کہا:
”روپیے پیسے کے معاملے میں ان سے ہمارا کوئی واسطہ نہیں۔ میں جن کا سامان لے کر جاتا ہوں مجوری (مزدوری) انھیں سے لیتا ہوں۔ “
الیاس نے اس کی ایک نہ سنی۔
خوشی کو کچھ ٹھیک نہیں لگ رہا تھا۔ اس کواپنے استاد محترم کی باتیں یاد آگئیں۔سر اکثر کہتے ہیں:
”ہمیں کسی کی مزدوری نہیں کاٹنی چاہیے۔ غریب کسان اور مزدور کا خیال رکھنا چاہیے۔ وہ لوگ بہت محنت کرتے ہیں۔“وہ کمرے کے اندر گئی اور پھر باہر نکل کر ماں کے کانوں میں کچھ کہا پھر پیچھے ہٹ گئی۔
ٹھیلے والا مایوس کن لہجے میں الیاس کی طرف دیکھنے لگا۔اس نے دل ہی دل کچھ کہا اور پھر دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ماں نے خوشی کو دروازہ بند کرنے‌ کے لیے کہا۔ خوشی ٹھیلے والے کے پیچھے پیچھےگئی اور سو روپئے کا نوٹ اس کے ہاتھ میں تھما دیا۔ٹھیلے والے نے حیرت سے بچی کو دیکھا اور ڈھیر ساری دعائیں دیں۔
٭٭٭

Post a Comment

0 Comments