اسلام میں سلام کی حقیقت
مفتی حافظ ضیاء الرحمٰن الہٰ آبادی
امام وخطیب جامع مسجد، کامٹی
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم.
برادرانِ اسلام! اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَا تُہ‘.
قربان جائیں ہم حبیبِ خدا محمدِ مصطفیٰ ﷺ پر کہ جنہوں نے قدم قدم پر ہما ری رہنمائی فرمائی ہے،ماں کی گود سے لیکر قبر کی گود تک کیا کرنا ہے؟ کیسے زندگی گزارنا ہے؟سب کچھ بتلا کر گئے،ہمیں کسی موڑپر بے سہارا نہیں چھوڑا، اللہ تعالیٰ محبوب ﷺ پر کروڑوں درودوسلام نازل فرمائیں۔آمین۔
اسلام کا شعار،ایمان کی پہچان،مسلمان کی شان اور آپﷺ کی ایک سنّت’’ سلام‘ ‘ہے۔ سلام کی فضیلت، افادیت، اہمّیت اورحکم کے بارے میں آیاتِ کریمہ اور احادیثِ مبارکہ بکثرت وارد ہیں۔عاشق کے لیے تو محبوب کا اشارہ ہی کافی ہوتا ہے لیکن ہم سب کے محبوب اللہ تعالیٰ اوراس کے رسولِ مقبولﷺ نے کئی مرتبہ سلام کرنے اور اس کے پھیلا نے کا حکم دیا ہے۔مثلاً اللہ تعالیٰ شانہ فرماتے ہیں:جب تم اپنے گھر میں داخل ہو تو سلام کر لو۔ (۱)۔ دوسری جگہ ارشاد ہے :جب تم سے کوئی سلام کرے تو تم اس کو اچھے سے یا اسی کے مانند جواب دو۔(۲)۔
اور نبی اکرم ﷺ فرماتے ہیں:تم جنّت میں اس وقت تک داخل نہیں ہو سکتے ہو جب تک تم مومن نہ ہواور تمھارا ایمان مکمل نہیں ہو سکتا جب تک آپس میں محبت نہ کرو،میں تم کو ایسی چیز بتاتا ہوں کہ اگر تم اسپر عمل کرو تو تمھارے درمیان محبت قائم ہو جائے گی وہ یہ ہے کہ تم آپس میں سلام کو عام کرو۔(۳)۔
نیز آپﷺ کا ارشاد ہے:
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ پر دس نیکی،
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُاللہْ پر بیس نیکی
اور اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَ کَاتُہْ پر تیس نیکیاں ملتی ہیں۔(۴)۔
سبحان اللہ! نیکیاں کمانا کتنا آسان ہے۔
آج جس طرح بازاروں میں مندی ہے، ہمارے نیک اعمالوں میں بھی مندی نظر آتی ہے، کیا کر رہے ہیں؟ دنیا میں آنے کا مقصد کیا ہے؟ خیال تک نہیں!!
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
(علا مہ اقبال ؒ)
سلام کرنے میں شرم محسوس کرتے ہیں، آپس
میں ملتے ہیں تو بغیر سلام کے بات شروع کر دیتے ہیں،ایک دوسرے کو پہچانتے ہیں پھر بھی سلام کرنے میں کتراتے ہیں،حالانکہ حدیثِ مبارک میں ہے:جسکونہیں پہچانتے اس کو بھی سلام کرو۔ (۵) اور حضرت عبد اللہ بن عمر تو صرف سلام کرنے کے لیے بازار جاتے تھے۔ (۶) مگر آج ہم!!
سلام کے الفاظ میں کوتاہیاں
بڑے افسوس کی بات یہ ہے کہ آج ہمارا سلام ’’سلام‘‘ نہیں رہا، اس لیے کہ سلام عربی میں ہے اور ہم اس کو صحیح طریقے سے کرنے کی فکر نہیں کرتے جس کی وجہ سے اس میں بدلاؤ یا کمی زیا دتی ہو جاتی ہے،اور ہر زبان کا اصول ہے کہ لفظ بدلنے سے معنی بھی بدل جاتا ہے۔
سلام میں کوتاہیاں.سَلَاوَالَیْکُمْ.سَلَامْ اَلَیْکُمْ.سَلَامَا لَیْکُمْ وغیرہ
جواب میں کوتاہیاں.وَالَیْکُمْ سَلَامْ .وَالَیْکُمَ السَّلَامْ.وغیرہ
بہر حال بڑی غفلت برتی جا رہی ہے۔
سلام کا مقصد تو دعا دینا اور دعا لینا ہے،اس کا معنی ہے’’تم ہر تکلیف اور ر نج ومصیبت سے سلامت رہو‘‘۔(۷) حضرت عبد اللہ بن عبّاس فرماتے ہیں:’’سلام ‘‘ اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔(۸)
بھلا بتائیے!! اگر صحیح طریقے سے سلام نہ کیا جاوے تو کیا وہ دعا ہوگا؟یا کچھ اور؟اور کیا اللہ تعالیٰ کے پاک نام کا بگاڑ،آپﷺ کی مبارک سنت میں لاپرواہی اور ایک عظیم دعا میں غفلت نہیں ہے؟؟ ایسے سلام سے امن وسلامتی اور محبت پھیل سکتی ہے؟ہم کامل مومن کہلائیں گے؟
خدارا صحیح اور سنت کے مطابق ’’سلام‘‘ سیکھیں، سکھائیں اور پھیلائیں تو ان شاء اللہ تعالیٰ محبت عام ہوگی،امن وسلامتی ہمارے قدم چومے گی اور ہم سچے مومن بھی بن جائیں گے کہ مقصدِ زندگی یہی ہے۔
کتاب وسنت کے مطابق طریقۂ سلام و جواب
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ : وَعَلَیْکُمُ السَّلَامُ وَ رَحْمَۃُ اللہْ.
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُاللہْ: وَعَلَیْکُمُ السَّلَامُ وَ رَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہٗ.
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہٗ: وَعَلَیْکُمُ السَّلَامُ وَ رَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَاتُہٗ.
اور صرف وَعَلَیْکُمْ بھی کافی ہے۔(۹)
حضرت ابنِ عباس فرماتے ہیں :ہر چیز کی ایک انتہا ہے اور سلام کی انتہا ’’وَبَرَ کَاتُہٗ‘‘ ہے۔ (۱۰)
امن وسلامتی تو عام ہو جائے
اگر ہمارا سلام ’’سلام‘‘ ہو جائے
(ضیاء)
حوالہ:(۱)سورۃالنور(۲)سورۃالنساء(۳)ابوداود شریف (۴)ترمذی شریف(۵) مشکوٰۃشریف (۶)مشکوٰۃ شریف (۷)معارف القرآن
(۸)روح المعانی (۹)معارف القرآن(۱۰)عالم گیری۔
٭٭٭
0 Comments