نجیب کے گھر پر ایک نوخیز و پرکشش لڑکی نے میرا استقبال کیا۔مہذب طریقے سے ملبوس تھی، سر پر آنچل ڈال رکھا تھا، لیکن نظریں تو اس کے جسم کے قوسوں اور دایروں میں الجھ کر رہ گیں تھی گویا پوسٹ مارٹم کر رہی ہوں۔وہ نجیب کی ملازمہ رقیہ تھی۔نجیب نے بتادیا تھا کہ بھابی اور بچے اپنے ننیہال گیے ہوئے ہیں۔
کھانے کی میز پر رقیہ نے مہمان نوازی کا فرض نبھایا۔ لیکن میری نظریں اس کے سراپا سے چپک کر رہ گئی تھیں۔ نجیب باتوں میں مصروف تھا کہ میری نگاہوں کی چوری نہیں پکڑ سکا۔
چلتے وقت میں نے کہا "یار تم اتنے متقی پرہیزگار آدمی ہو۔ ایسی قیامت کو نوکر رکھا ہوا ہے۔اسے حجاب اور عبایہ پہنوایا کرو"۔
اس نے ایک متاسفانہ نظر مجھ پر ڈالی اور بولا "جو کچھ میں دو سال میں نہ دیکھ سکا، تم نے دوگھنٹے میں دیکھ لیا! حجاب کی ضرورت اسے نہیں بلکہ تمھاری نظروں کو ہے "۔
٭٭٭
0 Comments