حسد کا رنگ
انور مِرزا
عید کی چاند رات…
میرے لیے اور اپنے بیٹے ’کبیر‘ کے لیے خالُو
شرٹس اور جینز پینٹس لائے...
دونوں ہی شرٹ سفید رنگ کے تھے...
مگر فرق نمایاں تھا...
خالُو کے بیٹے ’کبیر‘ کا شرٹ بہت اُجلا سفید تھا...جبکہ میرے شرٹ کا رنگ زردی مائل سفید اور بُجھا بُجھا سا تھا...
میَں نے اور کبیر نے سوالیہ نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھا...مگر خاموش رہے...
’’تمھاری امّاں نے جتنے پیسے دئیے...اُس میں یہی شرٹ خریدا جا سکتا تھا...‘‘
خالُو نے مجھ سے نظریں مِلائے بغیر وضاحت کی...
میَں نے تعجّب سے اپنی بیوہ ماں کو دیکھا...
اُن کی بے بس آنکھوں میں صبر کی تلقین کا اِشارہ تھا...
’’مگر امّاں...! میَں نے تو اپنی آٹھ دن کی پوری مزدُوری عید کے کپڑوں کے لیے دے دی تھی؟‘‘
دوسرے کمرے میں آتے ہی میَں نے احتجاج کیا...
’’پھر میرے ہی شرٹ کا رنگ میَلا کیوں...؟‘‘
’’رنگوں کا یہ فرق کپڑوں کا نہیں بیٹا... دِلوں کا ہے... یہ حسد کا رنگ ہے... جو چھُپائے نہیں چھُپتا...‘‘
’’حسد...؟ مطلب کیا اماّں...؟‘‘
’’حسد...مطلب...جب کوئی انسان تمھاری خوشی سے خوش نہ ہو... تمھیں کمتر اور حقیر ثابت کرنے کی کوشش کرے...‘‘
’’اِس سے کیا مِلتا ہے امّاں...؟‘‘
’’کچھ نہیں بیٹا...سِوائے دُنیا اور آخرت کی رُسوائی کے...‘‘
اُسی وقت کبیر اپنا شرٹ لے کر آیا...
’’بھائی...! آؤ...ہم اپنے اپنے شرٹ بدل لیتے ہیں...‘‘
’’نہیں کبیر...! اپنا شرٹ مجھے بہت پسند آیا...
یہ بہت قیمتی ہے...!‘‘
اچھّا سبق
انور مِرزا
چھوٹا سا ایک کوّا، بولا یُوں رو کے، ماں سے
"دل اٹھ گیا جہاں سے، لے چل ہمیں یہاں سے!"
پوچھا یہ ماں نے ہنس کر، کیا ہوگیا ہے تم کو
کیوں فلمی گیت لب پر؟ بتلاؤ بیٹا ہم کو!
معصوم کوّا بولا، نغموں کا میَں ہوں شائق!
بنناہے مجھ کو گائیک، کیا میَں نہیں ہُوں لائق
گاتی ہے خوب کوئل، پھر کیوں نہ میَں بھی گاؤں
میَں بھی تو اپنے نغمے، ہر ایک کو سُناؤں
سمجھایا ماں نے، بیٹا! حکمت ہے یہ خدا کی
سب ہی کو اُس نے دی ہے، کوئی نہ کوئی خوبی
تم کو عقل عطا کی، آواز بخشی اُس کو
گانے دو اُس کو نغمے، تم اپنا کام دیکھو
اوروں کی دیکھا دیکھی، کرنا کبھی نہ شیخی
عزّت نہیں نقل کی، عظمت ہے بس عقل کی
اب ہنس کے کوّا بولا ’’بے شک! کمال ہو تم!‘‘
"اچھا سبق سِکھایا، ماں! بے مثال ہو تم"
٭٭٭
0 Comments