تاروں کی جادوگری
نعیمہ جعفری
راجدھانی سے دوسو کلو میٹر دور ایک چھوٹے سے قصبے شیخو پور میں ماحولیاتی آلودگی نے ابھی آسمان کی شفافیت پر اپنا مٹ میلا سایہ نہیں ڈالا تھا۔تب ہی تو اپنے گھر کی چھت پر دری بچھا کر سونے کی کوشش کر تے ہوئے دس سالہ عیان اور چھ سالہ حفضہ کے سروں پر تاروں بھرے آسمان کی خوبصورت چادر سایہ فگن تھی۔ دونوں بھائی بہن بڑی دیر سے لاکھوں کروڑوں چھوٹے بڑے تاروں کے جال پر نظریں گاڑے جانے کس سوچ میں گم تھے۔ عیان کو لگ رہا تھا جیسے یہ کسی اسکول کا بڑا سا کھیل کا میدان ہے۔ کھیل کے گھنٹے میں کچھ تارے آنکھ مچولی کھیل رہے تھے اور کچھ ایک دوسرے کے کان میں سرگوشی کرکے کسی نئی شرارت کا پلان بنارہے تھے۔بوڑھا آسمان انھیں دیکھ کر دھیمے دھیمے مسکرا رہا تھا۔کچھ دیر میں ہیڈ ماسٹر اپنی کرنوں کی چھڑی لےکر آئیں گے اور سب تارے اپنی کلاسوں میں جاکر چھپ جائیں گے۔
پھر وہ سوچتا، یہ تارے کیا ہیں؟ سائنس کی کتاب میں لکھا ہے کہ یہ جلتے ہوئے آگ کے گولے ہیں جو ہماری زمین سے اربوں کھربوں میل دور ہیں اس لیے اتنے چھوٹے نظر آتے ہیں۔ کچھ تو سورج سے بھی بڑے ہیں۔ کچھ سورج کے گرد گھوم رہے ہیں، وہ سیارے ہیں۔ کچھ ٹہرے ہوئے ہیں وہ تارے ہیں۔
حافظ جی کہتے ہیں اللہ پاک نے تارے اس لیے بنائے ہیں تاکہ رات کے وقت زمین اور سمندر میں سفر کرنے والوں کو راستہ دکھائیں۔
ہندی کے سر کہتے ہیں کہ جیوتش ودیا کے مطابق بڑے گھومنے والے تارے دیوی دیوتا ہیں اور چھوٹے چھوٹے تاروں سے ان کے گھر بنے ہیں۔یہ کبھی اپنے گھر میں ہوتے ہیں اور کبھی دوستوں اور دشمنوں کے گھروں کا چکر لگالیتے ہیں۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ دنیا کے ہر آدمی کا ایک سیارہ ہوتا ہے۔نانی امیرن تو کچھ اور ہی کہتی ہیں۔
عیان انھیں سوچوں میں گم تھا کہ حفضہ نے کروٹ لے کر پوچھا ,"بھیا جو لوگ مرجاتے ہیں وہ کہاں جاتے ہیں؟"
پچھلے مہینے دادی کے انتقال کی وجہ سے حفضہ اتنی متاثر تھی کہ کھانا پینا، ہنسنا بولنا، لکھنا پڑھنا سب چھوڑ رکھا تھا۔ہر وقت روتی رہتی۔امی بہت پریشان تھیں اس کی وجہ سے۔
عیان نے جھٹ نانی امیرن کی بات دہرادی، "منی وہ آسمان میں تارے بن جاتے ہیں "۔
"تو کیا ہماری دادی بھی تارہ بن گئی ہیں؟"
اس نے آنکھوں میں آنسو بھر کر پوچھا۔
"ہاں منی، وہ دیکھو۔وہ جو سب سے روشن تارا ہے نا وہ ہماری دادی ہی تو ہیں۔ وہاں سے ہمیں دیکھ رہی ہیں اور ہم پر اپنی ر وشنی بکھیر رہی ہیں "۔
"بھیا کیا اب دادی کبھی نہیں آئیں گی ؟"
ارے بے وقوف، تارہ بننے کے بعد بھی کوئی واپس آتاہے! دیکھو وہ کتنی خوش ہیں۔اپنی سہیلیوں میں گھری بیٹھی ہیں۔ دیکھو کتنی چمک رہی ہیں۔اب وہیں سے ہمارا خیال رکھتی ہیں۔جب تم روتی ہو، پڑھائی نہیں کرتی ہو،اسکول نہیں جاتی ہو، تو وہ بھی دکھی ہوجاتی ہیں۔ان کی روشنی ماند پڑ جاتی ہے، اور کبھی تو وہ بادلوں میں منہ چھپاکر روپڑتی ہیں۔کیا تم دادی کو دکھی کرنا چاہتی ہو؟ "
نہیں بھیا، اب میں کبھی نہیں رووں گی۔پابندی سے اسکول جاؤں گی اور خوب دل لگا کر پڑھوں گی۔دادی چاہتی تھیں نا کہ میں ڈاکٹر بنوں، میں انھیں ڈاکٹر بن کر دکھاؤں گی۔"
حفضہ نے اپنی خواب آلود آنکھوں سے تارے کو دیکھا اور خوابوں کی دنیا میں کھو گئی۔
اور عیان سوچ رہا تھا، تارے تو سچ مچ جادوگر ہوتے ہیں۔
0 Comments