Ticker

6/recent/ticker-posts

روشنی کی حقیقت | ڈاکٹر محمد رفیق اے۔ ایس

روشنی کی حقیقت
ڈاکٹر محمد رفیق اے۔ ایس
’’ ارے پھر بجلی چلی گئی۔ جب بھی پڑھنے بیٹھو ایسا ہی ہوتا ہے۔‘‘
آصفہ نے جھنجھلا کر کہا۔
شاداب نے کہا۔
’’ڈرو مت، میَں روشنی کا انتظام کرتا ہوں۔‘‘
ماچس کی تیلی جلتے ہی کمرے میں روشنی ہوگئی۔ جلتی تیلی لگاتے ہی موم بتی جل اٹھی۔
لیکن آصفہ کے چہرے پر حیرت کے آثار تھے۔
شاداب نے پوچھا۔’’کیا ہوا آپا...؟‘‘
آصفہ نے کہا۔’’ دیکھو... اس موم بتی کا سایہ دِکھائی دے رہا ہے... لیکن جب تم نے تیلی جلائی تو اس کا سایہ کیوں نظر نہیں آیا؟‘‘
شاداب نے ہنس کر موم بتی بجھا دی۔پھر تیلی کو جلایا۔ واقعی جلتی تیلی کا کوئی عکس نہ تھا۔موم بتی جلا کر شاداب نے کہا۔
’’جہاں روشنی کی شدّت کم ہو اور کوئی شئے روشنی کے درمیان حائل ہو جائے... تو اُس شئے کا عکس یعنی سایہ بنتا ہے۔یہ اس لیے ہوتا ہے کہ روشنی کی شعاعیں اس سے ٹکرا کر واپس ہو جاتی ہیں یا بکھر جاتی ہیں... دیگر شعاعیں شئے کے قریب سے نکل جاتی ہیں۔‘‘
آصفہ اپنی پینسل موم بتی کے قریب لاکر، دیوار پر پینسل کا سایہ دیکھنے لگی... تب ہی شاداب تیلی جلا کر سایہ کے قریب لایا تو تیلی کی روشنی کی شدّت جہاں تک تھی، سایہ نہیں بلکہ روشنی تھی۔
اس ذاتی تجربے پر آصفہ اپنے بھائی کو تعریفی اور محبت بھری نظروں سے دیکھنے لگی۔
٭٭٭


Post a Comment

0 Comments