یہ کہانی ان نو جوانوں کے لیے ہے جوابھی جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ رہے ہیں اور اپنے والد کی نصیحتوں پر برا مان جاتے ہیں۔یہ کہانی سننے کے بعدآپ کی سوچ مکمل طور پربدل جائے گی کہ والد کی نصیحتیں ہمارے لیے واقعی فائدے کے لیے ہوتی ہیں۔ جس طرح کھیتی کے لیے پانی ضروری ہوتا ہے۔اسی طرح اولاد کی پرورش کے لیے والد کی ڈانٹ پھٹکار بھی ضروری ہے۔ ہر والد کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کی اولاد پڑھ لکھ کر اپنے پیروں پر کھڑے ہو۔ اولاد جب ترقی کی سیڑھیوں پر آگے بڑھتی ہے تو اولاد سے زیادہ خوشی اس کے وا لد کو ہوتی ہے۔ جب تک بچے اسکول کالج میں تعلیم حاصل کرتے ہیں تو ان کی پہچان ان کے باپ کے نام سے ہوتی ہے کہ یہ فلاں صاحب کا لڑکا ہے یا فلاں صاحب کی لڑکی ہے۔ لیکن ہروالد کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچے پڑھ لکھ کر اتنی ترقی کر لے کہ جب باپ گھر سے نکلے تو راستے میں لوگ کہیں دیکھو وہ فلاں انجینئر، فلاں ڈاکٹر، فلاں ٹیچر کے والد ہے۔ جنھوں نے اپنے بیٹے یا بیٹی کو اچھی تعلیم کے ساتھ ساتھ تمیز اور ادب بھی سکھایا ہے۔
ساجد کے والد بھی ساجدکو بہت سی نصیحتیں کیا کرتے تھے۔ ساجد ان کی اکلوتی اولاد تھی وہ نہیں چاہتے تھے کہ وہ کسی غلط صحبت میں پڑ کر اپنی زندگی برباد کرے۔ساجد کی پڑھائی مکمل ہوگئی تھی اور وہ نوکری کی تلاش سر گرداں تھا۔ وہ بچپن سے لے کر جوانی تک اپنے والد کی نصیحتوں کو سنتا رہا اور ان پر عمل بھی کرتا رہا۔ مگر اب والد کی نصیحتیں اسے زہر لگنے لگی تھیں۔ اسے لگتا تھا کہ اب وہ بڑا ہو چکا ہے اور اچھے برے کو بخوبی سمجھتا ہے۔
ساجد کو آج ایک آفس میں انٹرویو کے لیے جانا تھا۔ وہ گھر سے نکلتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ کاش! اگر آج میں کامیاب ہو جاؤں اور یہ نوکری مجھے مل جائے توفوراً میں اپنا گھر چھوڑ دوں گا۔ والد صاحب کی روز روز کی نصیحتوں سے تنگ آچکا ہوں۔ صبح اٹھنے سے لے کر رات کو سونے تک ذرا ذرا سی بات پر والد صاحب کی نصیحتیں سن سن کر اکتا گیا ہوں، بیزار ہو گیا ہوں۔ صبح غسل کی تیاری کرو تو حکم ہوتا ہے پہلے بستر کی چادر درست کرو، پھر غسل کرنے جاؤ۔غسل خانے سے نکلو تو فرمان جاری ہوتا ہے کہ نل ٹھیک سے بند کر دیا۔۔۔؟ ٹاویل صحیح جگہ رکھا ہے یا یوں ہی پھینک دیا۔۔۔؟ اتارے کپڑے واشنگ مشین میں ڈ الے کہ نہیں۔۔۔؟ ناشتہ کر کے گھر سے نکلنے کا سوچو تو ڈانٹ پڑتی کہ کمرےکا پنکھا لائٹ بند کیا ہے یا نہیں۔۔۔؟ برداشت کی بھی حد ہوتی ہے۔۔۔! کیا کیا سنے یار نوکری ملے تو گھر چھوڑ دوں گا یہی سب سوچتے ہوئے وہ آفس میں داخل ہوا۔
آفس میں بہت سے امیدوار باس کا انتظار کر رہے تھے،دس بج گئے تھے۔ ساجد نے دیکھا آفس کی گیلری کی لائٹ ابھی تک جل رہی ہے۔والد یاد آگئے تو فوراً جاکر گیلری کی لائٹ بجھا دی۔آفس کے دروازے پر کوئی نہیں تھا۔ بازو میں رکھے واٹر کولر سے پانی ٹپک رہا تھا تو اس نے فوراً وا لد صاحب کی ڈانٹ کو یاد کر تے ہوئے اس کو بند کر دیا۔ٹوائلیٹ کا دروازہ کھلا تھا اسے بند کیا۔تبھی اس کی نظر نوٹس بورڈ پر پڑی جس پر لکھا تھا انٹرویو دوسری منزل پر ہے سیڑھی کی لائٹ بھی جل رہی تھی۔ اسے بند کرتے ہوئے وہ آگے بڑھا۔ ایک کرسی بیچ راستے میں تھی اسے راستے سے ایک طرف ہٹا کر اوپر گیا وہاں پہنچ کر کیا دیکھتا ہے کہ اس سے پہلے ہی بہت سے امیدوار یہاں آکر بیٹھ چکے ہیں۔
ساجد بھی وہاں بیٹھ گیا اور اپنے نمبر کا بے صبری سے انتظار کرنے لگا۔ وہاں موجود امیدوار ایک ایک کرکے اندر جاتے اور فوراً واپس آجاتے معلوم کرنے پر پتہ چلا اندر وہ اپلی کیشن لے کر کچھ پوچھتے ہی نہیں واپس بھیج دیتے ہیں۔ ساجد کا نمبر آنے پر اس نے اپنی فائل مینیجر کے سامنے رکھ دی۔ تمام کاغذات دیکھ کر مینیجر نے پوچھا،
"ڈیوٹی کب سے جوائن کر رہے ہو۔۔۔؟"
ساجد کو اپنے کانوں پر بھروسا ہی نہیں ہو رہا تھا کہ منیجر صاحب نے اس سے ایسا کہا، وہ منیجر صاحب کی طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔! مینجر صاحب نے اس کی استہفامی کیفیت کو محسوس کر لیا اور کہا،
" ہا ں یہ حقیقت ہے۔ آج کے انٹرویو میں کسی سے کچھ پوچھا ہی نہیں بلکہ سی سی ٹی وی پر تمھارا برتاؤ دیکھا ہے۔ سبھی امیدوار آئے مگر کسی نے نل یا لائٹ بند نہیں کیا۔ مبارکباد کے مستحق ہیں تمھارے والدین کہ جنھوں نے تمھیں اچھی تعلیم و تربیت، دی تمیز اور تہذیب سکھائی جو شخص خود فیصلہ نہیں لے سکتا وہ چاہے جتنا ہوشیار اور چالاک ہو زندگی کی دوڑ میں پوری طرح کامیاب نہیں ہوسکتا۔ "
یہ سب سننے کے بعد اس کی آنکھوں میں آنسوں آگئے اسے سمجھ میں آگیا تھا کہ والد صاحب جو نصیحتیں کیا کرتے تھے وہ اس کی بھلائی کے لیے تھی۔ اس نے اسی وقت یہ طے کرلیا کہ گھر پہنچتے ہی وہ اپنے والد سے معافی مانگ کر انھیں یہ بتائے گا کہ آج وہ اپنی زندگی کی پہلی آز مائش میں ا ن کی چھوٹی چھوٹی باتوں پر روکنے اور ٹوکنے کی وجہ سے کامیابی ملی ہے۔آج ان کی سکھائی ہوئی باتوں کے سامنے اس کی ڈگریوں کی کوئی بھی قیمت نہیں۔
٭٭٭
1 Comments
بہترین پوسٹ
ReplyDeleteلاجواب👏👏
بہت بہت مبارک ہو۔