بہری
پینٹر نفیس
”امّی۔۔۔امّی۔۔۔“ بارہ سالہ صابرہ نے گھر میں داخل ہوتےہی ایک طرف بستہ پٹک کر کہا۔ ”میں اب اسکول نہیں جاؤں گی۔۔۔“
” کیوں۔۔۔؟“ماں زبیدہ نےحیرت سے کہا۔
”امّی۔۔۔آج پھر۔۔۔“اتناکہتے ہی صابرہ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ ”امّی۔۔۔اس رک رک کر کہنا شروع کیا ”آج پھر۔۔۔۔ عالیہ اور صائمہ نے مجھے چڑایا۔۔۔ اور مذاق بھی اڑایا۔۔۔“
”کیا؟آج پھر۔؟“زبیدہ نے رنجیدگی سے کہا۔
”کہتے ہیں۔۔۔تو کالی کلوٹی ہے۔۔۔اپنی ماں جیسی۔۔۔“اتنا کہہ کر وہ پھوٹ کر رونے لگی۔
زبیدہ کا دل بھر آیا۔ لوگوں کےطنز اور فقرے اس کے کانوں میں گونجتے محسوس ہوئے۔ وہ جانتی تھی بچّیاں کس طرح تضحیک کرتی ہیں۔ یہ اس کے اپنے ساتھ بھی بچپن سے ہوتا آیا ہے۔ یہ وہ لفظ ہے جو ہتھوڑا بن کر سر پر پڑتا ہے۔ لوگوں کی ہنسی کانوں کے پردے پھاڑ دیتی ہے۔
یکلخت اس نے اپنے آپ کو سنبھالااور مستحکم لہجے میں گویاہوئی۔
”بیٹی۔۔۔اس میں رونے کا نہیں۔۔۔“
”پھر کیا کروں میں۔۔۔“صابرہ نے سسکتے ہوئے کہا۔
”دیکھو۔۔۔ تم وہی کرو جو میں کہتی ہوں۔۔۔“
”کیا۔۔۔؟“
”تم ان لوگوں کی باتوں پردھیان مت دو اور ان لوگوں کا منہ بند کرنا ہے تو ایک کام کرو۔۔۔“
”وہ کیا ماں۔۔۔“صابرہ نے دوپٹّےسےآنسو پونچھتے ہوئےکہا۔
”تم ان لوگوں کی باتوں کو ایسے نظرانداز کرو جیسے کہ تم بہری ہو۔خوب پڑھائی کرو اور کلاس میں ٹاپ کرو۔تمھارا بہترین رزلٹ ان لوگوں کا منہ بند کردے گا۔۔۔“
”ہاں۔۔۔ہاں امّی۔۔۔“صابرہ نے خوش ہوتے ہوئے کہا ”کل سے میں کلاس میں بہری بن کر رہوں گی۔۔۔“
0 Comments