خواب
رخسانہ نازنین
"امی دیکھئے نا۔ میری شنو رانی کو بخار آگیا ہے۔ چلیے اسے اسپتال لے چلیں۔ "
سمیرا اپنی گڑیا کو بانہوں میں سنبھالے کھڑی تھی۔ تیزی سے سلائی مشین چلاتی رضیہ کو اس کی معصومیت پر پیار آگیا۔
"ارے کیا ہوا میری بٹیا کی گڑیا رانی کو؟"
"ارے کچھ بولتی ہے نہ کچھ کھاتی ہے، بس چپ چاپ ٹکر ٹکر میری طرف دیکھتی رہتی ہے۔ چلیے نا ڈاکٹر کو دکھا لائیں۔"
اس کی وہی ایک ضد تھی۔ رضیہ نے اسے اپنی گود میں بٹھایا اور مسکرا کر کہا،
"بیٹاجی۔ گڑیوں کے ڈاکٹر نہیں ہوتے۔ اگر ہم اسے ڈاکٹر کے پاس لیجائیں تو وہ ہماری بے وقوفی پر خوب ہنسیں گے! "
" کیوں ہنسیں گے؟کیا گڑیا کو بخار نہیں آسکتا؟"
رضیہ نے پھر اسے سمجھایا، "آسکتا ہے مگر اس کا علاج ڈاکٹر کے پاس نہیں۔ اس کا علاج تمھارے پاس ہے۔ یہ تمھاری گڑیا ہے۔ ایسا کرو۔ پہلے خوب پڑھ لکھ کر ڈاکٹر بن جانا پھر اس کا علاج کرنا۔۔۔!"
یہ سن کر سمیرا کا چہرہ کھل اٹھا۔
"ہاں یہ ٹھیک رہے گا۔ میں بڑی ہوکر ڈاکٹر بنوں گی اور اپنی گڑیا کا علاج کروں گی۔ " وہ گڑیا کو سینے سے لگائے کمرے میں چلی گئی۔
اس کے ذہن ودل میں یہ بات بیٹھ گئی کہ اسے خوب پڑھنا ہے اور ڈاکٹر بن کر گڑیوں کا علاج کرنا ہے۔
شام میں جب اس کی سہیلیاں کھیلنے آئیں تو اس نے ان سب سے یہی کہا،
"پاگل ہوگئی ہے۔ ڈاکٹر بنے گی ڈاکٹر۔۔۔۔! پتہ بھی ہے ڈاکٹر بننے کے لیے کتنی موٹی موٹی کتابیں
پڑھنی پڑھتی ہیں! "
" اور نہیں تو کیا۔۔۔ اور پتہ ہے ڈاکٹر بننے کے لیے لاکھوں روپئے فیس دینی پڑتی ہے۔ ابو کہہ رہے تھے کہ بڑے بھیا کی فیس جمع کروانے کے لیے انھوں نے کھیت بیچ دیا تھا۔ "
" سمیرا تیرے تو ابو بھی نہیں ہیں۔ تیری امی کپڑے سیتی ہیں۔ وہ فیس کیسے ادا کریں گی؟ "
اس کی ساری سہیلیاں بھانت بھانت کی بولیاں بول رہی تھیں اور اس کا مذاق اڑا رہی تھیں۔ وہ یہ سب سن کر مایوس اور اداس ہوگئی۔
بجھی بجھی سی ان کے کھیل میں شامل ہوئے بغیر گھر آگئی اور بنا کچھ کھائے پئے چارپائی پر لیٹ گئی۔ اور اپنی گڑیا سے باتیں کرنے لگی۔
"شنو۔۔۔ تو نے سنا۔ سب نے کیسے میرا مذاق اڑایا۔۔۔! مگر وہ سچ کہہ رہی تھیں۔ میرے ابو اللہ میاں کے پاس چلے گئے ہیں نا۔ اگر ابو ہوتے تو مجھے ضرور ڈاکٹر بناتے۔!" اس کی آنکھوں سے آنسو ڈھلکنے لگے۔
رضیہ نے گاؤں کے سرکاری اسکول میں سمیرا
کا داخلہ کروادیا۔ وہ خوشی خوشی اسکول جاتی۔ دل لگا کر پڑھتی۔ ایک دن ٹیچر نے پوچھا،
"بچو۔۔۔ آپ سب بڑے ہوکر کیا بننا چاہتے ہیں؟ "
سمیرا نے فوراً اپنا ہاتھ اٹھایا اور کہا، " ڈاکٹر۔ "
سب لڑکے لڑکیاں دبی دبی آواز میں ہنسنے لگے۔ ٹیچر کو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی اور غصہ بھی آیا،
" کیوں ہنس رہے ہو تم لوگ؟ "
" میڈم۔ وہ سمیرا نے کہا نا کہ وہ ڈاکٹر بننا چاہتی ہے تو ہنسی آگئی۔"
" کیوں اس میں ہنسنے والی کیا بات ہے؟ " ٹیچر نے ڈپٹ کر پوچھا،
رفیعہ نے جھجکتے ہوئے کہا،
" میڈم۔ ابو نے کہا تھا کہ ڈاکٹر بننے کے لیے شہر کے اسکول جانا پڑتا ہے۔ اس کے لیے بہت سارے روپئے چاہئے۔ سمیرا کے ابو نہیں ہیں۔امی کپڑے سیا کرتی ہیں پھر وہ ڈاکٹر کیسے بنے گی؟ "
" ضرور بنے گی۔ اگر محنت سے دل لگا کر پڑھے گی تو ایک دن ضرور ڈاکٹر بنے گی۔ اور پیسوں کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اچھا پڑھنے والے بچوں کو سرکار اسکالر شپ دیتی ہے۔!"
یہ سن کر سمیرا کا مرجھایا ہوا چہرہ پھر سے کھل اٹھا۔ ٹیچر کی باتوں نے اسے حوصلہ دیا۔ اس کا ارادہ اور پختہ ہوگیا۔
سمیرا ذہین تھی۔ دن رات پڑھائی میں مشغول رہتی۔ ہر سال کلاس میں اول درجے سے پاس ہوتی۔ ساتویں جماعت میں سب سے زیادہ نمبر لینے پر اسکول کے سالانہ جلسے میں سرپنچ جی نے اسے انعام دیا۔ تالیوں کی گڑگڑاہٹ کے ساتھ اسٹیج پر بلایا گیا تو رضیہ کی آنکھیں خوشی سے برسنے لگیں۔ سرپنچ جی نے کہا،
"سمیرا ایک ذہین لڑکی ہے۔ ایسی لڑکیوں کو خوب پڑھانا چاہئے۔ میں مرزا پور کے ہائی اسکول میں اس کے داخلے کی کاروائی کرواؤں گا۔ مجھے یقین ہے کہ ایک دن یہ ہمارے گاؤں کا مان بڑھائے گی۔!"
یہ سن کر سمیرا خوشی سے پھولی نہ سمائی۔
اور پھر سرپنچ جی نے ہائی اسکول میں اس کے داخلے کا انتظام کردیا۔ اسکول کی طرف سے سائیکل مل گئی تھی۔وہ راستے کی دشواریوں کی پرواہ کئے بغیر ہر موسم کی صعوبتیں سہتی ہوئی اسکول جاتی اور دل لگا کر پڑھتی۔
دسویں جماعت میں بھی اس نے امتیازی کامیابی حاصل کی۔ اس کے حوصلے بلند ہوتے گئے۔
ہائی اسکول کے ہیڈ ماسٹر صاحب نے اس کی ذہانت اور صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے شہر کے کالج میں ایڈمیشن کروادیا۔
" بیٹی۔ اپنے حالات سے کبھی نہ گھبرانا۔ اللہ تعالیٰ محنت کرنے والوں کا ہمیشہ ساتھ دیتا ہے۔ ان شاءاللہ ایک دن تم ضرور ڈاکٹر بنوگی۔"
ہیڈ ماسٹر صاحب نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر
دعا دی تو اس کی آنکھیں بھر آئیں۔
پھر وہ تعلیمی منازل طئے کرتی گئی۔۔۔ انٹر میں پورے صوبے میں ٹاپ کیا اور سی ای ٹی کے شاندار رزلٹ کے سبب اسے فری میڈیکل سیٹ مل گئی۔ کالج کے ہی ہاسٹل میں رہنے کا انتظام ہوگیا اور اسکالر شپ سے پڑھائی کے اخراجات پورے ہوتے گئے۔
دن گزرتے گئے۔ ہر سال وہ امتیازی نشانات حاصل کرتی اور کالج کی ٹاپر لڑکی کے خطاب سے نوازی جاتی۔ اپنے عزم وحوصلے سے وہ ہر مشکل کا ڈٹ کر سامنا کرتی رہی۔
ایم بی بی ایس میں شاندار کامیابی حاصل کرکے اس نے اسپیشیلائزیشن کیا اور آج وہ ایک چائلڈ اسپیشلسٹ ڈاکٹر تھی جو بے شمار جیتے جاگتے گڈے، گڑیوں کا علاج کررہی تھی مگر آج بھی اس کی ٹیبل پر اس کی وہی گڑیا رکھی ہوئی تھی جس کے علاج کے شوق نے اسے ڈاکٹر بنایا تھا۔ اس کی معصوم انکھوں میں سجا خواب حقیقت بن چکا تھا۔
"میری شنو۔ میری پیاری گڑیا، میری زندگی۔! اگر امی نے تیرے بخار والے کھیل پر میرے دل میں ڈاکٹر بننے کی امید کی شمع نہیں جلائی ہوتی اور تو میرے ساتھ نہ ہوتی تو میں کبھی ڈاکٹر نہ بن پاتی۔! میری شنو، میری گڑیا۔۔۔!"
سمیرا یہی سوچ کر مسکرائے جارہی تھی۔ پھر اس نے گڑیا کو تھاما اور اسے اپنی بانہوں میں بھر لیا۔!
٭٭٭
0 Comments