اسکول میں نئی استانی آئیں تو انھوں نے اپنی جماعت کا نقشہ ہی بدل دیا۔ وہ طالبات جو وقت پر اسکول نہیں آتی تھیں وہ اب وقت پر آنے لگیں۔ اسمبلی میں اپنے اپنے قد کی مناسبت سے وہ خود قطار بنا کر سلیقہ سے کھڑی ہو جاتیں۔ صاف ستھرے نیلے نیلے فراکوں میں وہ اس طرح دکھائی دیتیں جیسے کسی تالاب میں موجوں نے بہت سارے نیل کمل ایک قطار میں سجادیے ہوں۔ کلاس روم میں جاتیں تو پھولوں کی لڑی کی طرح۔کوئی لڑکی لائن سے ادھر نکلتی نہ ا دھر۔روم میں دیوار سے اپنی اپنی جوتیاں اس طرح اتارتیں کہ ان کی یہ پاپوشیں ان کے قرینے کی گواہی دیتیں۔ پھر قطار در قطار بیٹھ کر سب کی سب کتابیں کھول کر کل کا سبق پڑھنے لگتیں۔
کلاس روم میں جب استانی داخل ہوتیں تو وہ سب ایک ساتھ ادب سے اٹھ کھڑی ہوتیں۔ کیپٹن بلند آواز میں تعظیم کہتی تو دوسرے ہی پل تمام لڑکیاں ایک آواز میں گڈ مارننگ میڈم کہتیں۔ اس سے پہلے کہ ا ستانی جی انہیں بیٹھنے کا اشارہ کریں سب کی سب لڑکیاں بلند آوازمیں ایک چھوٹا سا قول ادا کرتیں۔
جب سے یہ نئی استانی آئی تھیں طالبات کا یہ معمول انھوں نے بنادیا تھا۔ جو قول وہ منتخب کرتیں وہ قول طالبات ہفتہ بھر دہرایا کرتیں۔ دوسرے ہفتے پھر کوئی نیا قول منتخب کیا جاتا۔
گذ شتہ ہفتے یہ قول منتخب کیا گیا کہ ’’جھوٹ موٹ بھی جھوٹ نہیں بولنا چاہیے۔‘‘استانی جی نے محسوس کیا کہ اسے ادا کرتے ہوئے جماعت کی کیپٹن صادقہ ہچکچارہی ہے۔ دوسرے دن بھی کچھ ایسا ہی لگا۔تیسرے دن بھی صادقہ کی یہی کیفیت رہی تو درمیانی چھٹی میں تمام لڑکیاں باہر میدان میں نکل گئیں تب استانی جی نے صادقہ کو اپنے پاس بلایا۔ محبت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔صادقہ نہایت ذہین اور فرماں بردار لڑکی تھی۔اس کے والد کا چھوٹا موٹا کاروبار تھا۔
انھوں نے بارہویں کلاس تک تعلیم حاصل کی تھی۔ والدہ دسویں پاس تھیں۔ دونوں چاہتے تھے کہ ان کی بیٹی خوب پڑھے۔گھر کا ماحول ماشاء اللہ بہت اچھا تھا۔ماں باپ نماز روزے کے پابند تھے۔وہ اپنی اکلوتی لاڈلی بیٹی کو بھی نماز پڑھنے کی تاکید کرتے۔ ناظرہ قرآن بھی تقریباًپورا ہونے کو تھا۔
استانی جی نے صادقہ سے چپکے چپکے کچھ پوچھا۔ اور پھر اسے کچھ ہدایتیں کیں۔ صادقہ فرماں بردار شاگرد کی طرح گردن ہلا تی ہوئی اس طرح سنتی رہی جیسے اس نے اپنی استانی کی بات اچھی طرح سمجھ لی ہے۔
اسکول کی چھٹی ہوئی تو صادقہ نے گھر پہنچ کر کچن میں اپنی والدہ کو سلام کیا اور پھر ڈرائینگ روم میں پہنچی۔اس کے والد بیاض میں کچھ حساب کتاب لکھ رہے تھے۔اس نے انہیں سلام کیا۔پھر استانی کی ہدایت کے مطابق اس نے اپنے ابو کو مٹھائی لانے کے لیے کہا۔
بیٹی ہمیں معلوم تو ہو کہ تم مٹھائی کیوں منگوا رہی ہو۔کیا کسی مقابلے میں پھر اوّل آئی ہو؟
نہیں ابو !ایسی بات نہیں ہے۔بات یہ ہے کہ ایک ہفتہ ہوا مجھے استانی جی نے اپنی کلاس کی کیپٹن بنادیا ہے۔
اچھا تو تم اس خوشی میں مٹھائی کھانا چاہتی ہو۔
ہاں، مٹھائی میں خود بھی کھاؤں گی اور استانی جی کو بھی کھلاؤں گی۔
اچھی بات ہے،شام میں گھر آتے ہوئے میں تمہارے لیے مٹھائی خرید لاؤں گا۔
شام میں جب مٹھائی گھر آئی تو صادقہ کے ابّوامّی نے اسے محبت سے پاس بلایا اور اسے مٹھائی کھلانی چاہی تو اس نے مٹھائی کھانے سے انکار کیا۔
دونوں اپنی لاڈلی بیٹی کو مٹھائی کھانے کے لیے منانے لگے۔لیکن صادقہ نے پھر انکار کرتے ہوئے کہا،’’ نہیں ابّو نہیں۔ میں اس زبان پر مٹھائی نہیں رکھوں گی جو میری استانی جی کے سامنے کلاس روم میں اچھی بات کہتے ہوئے رک رک جاتی ہے۔ ‘‘
ارے بٹیا ! یہ تو بہت بری بات ہے۔ کوئی اچھی بات زبان سے ادا کرتے ہوئے ایسا نہیں ہونا چاہیے۔
مگر ابو ! ایسا ہورہا ہے!!(صادقہ نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا)آج بھی ایسا ہوا، کل بھی ایسا ہوا تھا اور پرسوں بھی۔
صادقہ کے والدین کے چہروں پر فکر مندی کے اثرات نظر آئے۔دونوں نے ایک ساتھ پوچھا۔ بیٹی !آخر وہ کون سی اچھی بات ہے جو تم ٹھیک سے نہیں کہہ پارہی ہو۔
صادقہ نے تیر نشانے پر بیٹھتا دیکھا تو منہ پھلا کر بولی’’جھوٹ موٹ بھی جھوٹ نہیں بولنا چاہئے ‘‘
پھر اسی طرح منہ پھلائے وہ ان دونوں کی طرف پیٹھ پھیر کر بیٹھ گئی۔
دونوں نے اسے بہت سمجھایا بجھایا۔آخر وہ اپنی بیٹی کی زبان کھولنے میں کامیاب ہو ہی گئے۔ صادقہ نے کہا کہ اس کی زبان ’’جھوٹ موٹ بھی جھوٹ نہیں بولنا چاہیے‘‘کہنے سے اس لیے رک جاتی ہے کہ کبھی کبھی ان کے گھر کوئی اس کے والد کو آواز دیتا ہے تو وہ اپنی بیٹی سے کہتے ہیں کہ بٹیا ان سے جاکر کہہ دو کہ ابّو گھر میں نہیں ہیں !
اپنی معصوم بیٹی کی زبانی یہ سچ سن کر وہ دونوں ایک دوسرے کو حیرانی اور تعجب بھری نگاہوں سے دیکھنے لگے۔چند لمحے یوں ہی گذرے تھے کہ ان دونوں کے چہروں پر حیرانی اور تعجب کے یہ رنگ شرمندگی کے رنگوں میں بدل گئے۔دونوں نے اپنی لاڈلی بیٹی کو گلے لگاتے ہوئے کہا کہ بیٹی آئندہ اس گھر میں جھوٹ موٹ بھی کوئی جھوٹ نہیں بولے گا۔
صادقہ کو ایسا لگا جیسے آنگن میں قرینے سے رکھے پھولوں کے گملوں میں ایک ساتھ سیکڑوں پھول کھل گئے ہوں۔
دوسرے دن اسکول کے وقت سے پہلے وہ اپنی استانی کے لیے بستے میں مٹھائی کا ڈبّہ لیے خوشی خوشی جارہی تھی۔
لِفٹ
متین اچل پوری
یہ لفٹ ہے جی، لفٹ ہے
بہت مفید گِفٹ ہے
یہ علم کے شجر کا پھل
ہے بے مثال، بے بدل
ضعیفو ناتوانو آؤ
نہ ایسی دقتیں اٹھاؤ
یہ زینے تم نہ چڑھ سکو
جو آگے تم نہ بڑھ سکو
نہ ہاتھ ایسے اب مَلو
یہ لِفٹ ہے چلے چلو
کہاں ہے جانا بولیے
یہ گیٹ پھر نہ کھولیے
بٹن دبایا، چل پڑے
جہاں کہا، نکل پڑے
ذرا میں، کیسی شان سے!
ملایا آسمان سے
یہ اک دراز سیڑھی ہے
کرشمہ ساز سیڑھی ہے
نہ کچھ اسے کھلائیے
ہاں! بجلی اِس کو چاہے
یہ علم رب کی دین ہے
بڑے غضب کی دین ہے
ماہنامہ الفاظ ہندفروری 2022ء
0 Comments