جائز حق
سلام بن رزّاق
مارک ٹوین امریکہ کا زبردست مزاح نگار ہو گزرا ہے۔ غالب کی طرح بات میں بات پیدا کرنے میں اسے کمال حاصل تھا۔ اس کی ہر بات میں عموماً مزاح کا پہلو ہوتا۔یہ سچّی کہانی بظاہر مزاحیہ ہے... مگر اِس کا پیغام سبق آموز ہے...
مارک ٹوین اور سیونٹن نے ایک اخبار جاری کیا مگر ان کا اخبار ابھی ابتدائی دور سے گزر رہا تھا،
اس لیے انھیں ہمیشہ روپیوں کی ضرورت رہتی تھی۔ ایک دفعہ تین ڈالر کی سخت ضرورت پیش آئی۔ دونوں اخبار کے دفتر میں فکر مند بیٹھے خیالی گھوڑے دوڑا رہے تھے، مگر کوئی تدبیر سمجھ میں نہیں آرہی تھی۔ اتنے میں خدا جانے کہاں سے ایک خوبصورت کتا ہانپتا ہوا آیا اور مارک کے پیروں کے پاس بیٹھ کر سستانے لگا۔ مارک نے حیرت سے اسے دیکھا، پھر ادھر ادھر نظر دوڑائی کہ کہیں اس کا مالک نظر آجائے، مگر وہاں کوئی نہیں تھا۔ چند لمحوں بعد جنرل مائلس کا وہاں سے گزر ہوا۔ ان کی نظر مارک کے پیروں کے پاس بیٹھے ہوئے خوب صورت کُتے پر پڑی۔ انھوں نے مارک سے پوچھا
’’مجھے کتے کی ضرورت ہے کیا تم اسے مناسب داموں میں فروخت کرنا پسند کروگے؟‘‘
مارک نے ایک لمحہ تک کچھ سوچا اور پھر جھٹ کہا۔ ’’تین ڈالر دے دیجئے اور کتا لے جائیے۔‘‘
’’جنرل مائلس نے کتنے کی قیمت زیادہ دینی چاہی مگر مارک نے تین ڈالر سے زیادہ لینے سے انکار کردیا۔ آخر مائلس نے تین ڈالر اس کی ہتھیلی پر رکھے اور کتے کو لے کر چلا گیا۔ ابھی دو منٹ بھی نہ گزرے ہوں گے کہ ایک شخص ہانپتا کاپتا آیا۔ مارک پر نظر پڑے ہی اس نے تیز چلتی ہوئی سانسوں پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ بھائی! تم نے یہاں میرا کتا دیکھا ہے؟ اس کے گلے میں سنہرے رنگ کا پٹہ تھا۔‘‘
مارک نے کہا، ’’ہاں دیکھا تو ہے اور اسے ڈھونڈنے میں آپ کی مدد کر سکتا ہوں مگر اس کے بدلے میں مجھے تین ڈالر دینے ہوں گے۔‘‘
اس شخص نے جھٹ سے تین ڈالر نکالے اور مارک کو دیتے ہوئے لجاحت آمیز لہجے میں کہا۔ ’’صاحب! بڑی مہربانی ہوگی چلئے میری مدد کیجئے۔‘‘
مارک اس شخص کو سیدھا جنرل مائلس کے گھر لے گیا اور جنرل مائلس کے تین ڈالر واپس کرتے ہوئے ان سے کتا لے کر اصل مالک کے سپرد کردیا اور کتے کے مالک کے تین ڈالر، جو اس کا جائز حق تھا، اپنی جیب میں ڈال کر دفتر کی طرف چل دیا۔
0 Comments