Ticker

6/recent/ticker-posts

غلاف | فرخندہ ضمیر

غلاف
فرخندہ ضمیر

گل ِ رعنا جیسے ہی عنفوانِ شباب کی عمر میں آئی تو گلوں کے رنگ پھیکے پڑ گئے۔ اس کے حسین چہرے پر نگاہ پڑتی تو اٹھنا بھول جاتی۔ محفل میں منفرد نظر آتی۔ والدین خوش بھی تھے لیکن فکر مند بھی۔ وہ زمانے کے بدلتے ہوئے پرگندہ حالات سے خائف تھے۔ اخبار کی سرخیوں سے انکا دل لرز جاتا۔ ہر بیٹی انکو اپنی بیٹی نظر آتی۔ نعیم صاحب نے اپنی بیٹی کو حجاب پہننے کی تلقین کی۔ گل رعنا راضی نہیں ہوئی۔
"ابّو میں اپنی سہیلیوں میں مزاق کا موضوع بن جاؤں گی۔ اسکول مینیجمنٹ بھی اجازت نہیں دے گا۔"
" بیٹا حجاب عورت کی حفاظت کرتا ہے۔ ماحول سے، گندی نظروں سے، بیماریوں سے، سرد و گرم موسم سے۔ تم خود دیکھو لڑکیاں دھوپ کی تمازت سے بچنے کے لیے چہرے پر اسکارف باندھتی ہیں۔ ہاتھوں میں دستانیں پہنتی ہیں حجاب ایک طرح کا غلاف ہے۔ "۔ نجمی صاحب نے بیٹی کو قائل کرنے کی کوشش کی۔
گل رعنا کمسن تھی بے دلی سے حجاب پہننے کو را ضی ہوئی۔ سہیلیاں مزاق اڑاتیں۔ لڑکے پھبتیاں کستے " پاکستانی بھینس " گلِ رعنا کو بہت برا لگتا لیکن والدین کی سختی کی وجہ سے اپنی من مانی نہیں کر پاتی۔
گلِ رعنا کی سہیلی پری شرما بھی پریوں کی طرح حسین تھی۔ سب سےزیادہ حجاب کا مزاق وہ ہی اڑاتی۔اس کے بے پردہ حسن کو دیکھ کر لڑکے اسے کالج کے گیٹ تک چھوڑنے کا اہم فریضہ انجام دیتے۔ پری اپنے پرستاروں کو دیکھ کر غرور سے تن جاتی۔ حسن کو مدح سرائی پسند ہے۔
ایک لڑکا کئی دن سے اس کا پیچھا کر رہا تھا۔ پری کی خاموشی سے اس کی جسارت بڑھ گئی ایک دن اس نے راستہ روک کر اظہارِعشق کر دیا۔ پری اس اوباش لڑکے کی اس حرکت سے گھبرا گئی۔ مسلسل اس کی غلیظ نظروں اور جملہ بازیوں سے گھبرا کر اس نے اپنے بھائی سے شکایت کر دی۔ بھائی نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر اس اوباش لڑکے کی مرمّت کر دی۔ لڑکا سین سے غائب ہو گیا۔ پری نے یہ سارا واقعہ مزے لے لےکر گل رعنا کو سنایا۔
اچانک ایک خبر نے پورے ماحول کو دہشت زدہ کر دیا۔ ہر والدین کانپ گئے۔اس اوباش لڑکے نے پری شرما پر ایسڈ اٹیک کیا تھا۔ پری کا حسین چہرہ داغدار ہو گیا تھا۔ پری شرما کی ذہنی اور جسمانی حالت بہت خراب تھی۔ اسے سنبھلنے میں مہینوں لگے گئے۔
اب وہ اسکول حجاب پہن کر آنے لگی۔

Post a Comment

0 Comments