گرمی کی چھٹی
سہیل عالم
گیا سردی کا موم آئی گرمی
کہ تپتی دحوپ بچو لائی گرمی
رکھو پیٹی میں کمبل اور سویٹر
چلیں گیں اب تو پنکھے اور کولر
پیو شربت دہی کے اور لسی
فروٹی، پیپی اور ماوا کلفی
ہمیں قدرت نے ہے انعام بخشا
موسمبی، سنترے اور آم بخشا
دیے خربوز اور تربوز اُس نے
دیے انگور ہیں اور ککڑی جس نے
مزے لے لے کے کھائیں سارے پھل ہم
تروتازہ رہیں ہر ایک پل ہم
ڈپٹ کر مجھ سے کہتی ہیں یہ دادی
نہ کرنا دھوپ میں آوارہ گردی
ملی گرمی کی ہے چھٹی تمہیں جو
تم اُس کا فائدہ پورا اٹھاؤ
کرو ضائع نہ ہرگز قیمتی پل
پڑھو تم کو اگر آنا ہے اول
ادھورا رہ نہ جائے کوئی سپنا
کرو اونچا جہاں میں نام اپنا
تھی محنت خوب جو اب کے برس کی
کرو تیاری اب اگلے برس کی
0 Comments