غزل
✍️ مدحت الاختر
🍁
ستارے توڑ کے دیتا ہے آفتاب مجھے
دکھا رہا ہے وہ چہرہ عجیب خواب مجھے
میں ایک قطرۂ شبنم ہوں دامنِ گل پر
اٹھائے سیکڑوں نیزوں سے آفناب مجھے
میں اپنے آپ میں پہلے تو یوں اسیر نہ تھا
ملا ہے کب کے گناہوں کا یہ عذاب مجھے
وہ ابر جسم کو شاداب کر گیا ورنہ
جھلس رہا تھا فضاوں کا التہاب مجھے
میں اپنی خاک کے ذروں میں جا ملا مدحت
بلا رہا تھا بلندی سے ماہتاب مجھے
🍁
0 Comments