قیام انجمن ضیاء اسلام
✍️ شمشاد شاد
🍁
صبحیں اس کی ہیں منوّر، تو معطّر ہر شام
اس لیے سب کی زبانوں پہ ملا اس کا نام
باعثِ فخر ہے یوں اس کا وجود اور قیام
اس نے تقسیم کی ہر لمحہ ضیاءِ اسلام
ظلمتِ جہل میں یہ علم کی روشن قندیل
نور سے اس نے زمانے کی بھری ہے زنبیل
فہم و ادراک کے پیدا کیے اس نے وہ گہر
روبرو جن کے ملے خندہ جبیں شمس و قمر
اس میں ہے پیار محبّت کی، وفا کی خوشبو
اس سے وابستہ ہے اردو کی بقا کی خوشبو
مرکزِ علم و ادب اس کا مہکتا آنگن
میر و اقبال کا غالب کا یہی ہے گلشن
اس نے سوئے ہوئے ذہنوں کو جلا بخشی ہے
اک سلیقہ، نئی جینے کی ادا بخشی ہے
دامنِ دل ہے یقیناً ہی بہت اس کا وسیع
علم اور فن کو ہمیشہ ملی اس سے توسیع
خوابِ غفلت سے زمانے کو جگایا اس نے
خاک کے ذرّوں کو خورشید بنایا اس نے
منفرد لائیبریری ہے، الگ اس کا ہے وقار
علم والے ہی سمجھتے ہیں بس اس کا معیار
اس کے اغراض و مقاصد ہیں طویل اور عریض
اس کے دلدادہ ملے سارے طبیب اور مریض
رنگ اور نور کی برسات مبارک سب کو
جشنِ صد سالہ کی سوغات مبارک سب کو
چشمۂِ شیر لکھوں یا کہ سمُندر لکّھوں
میکدہ لکّھوں کہ عرفان کا ساغر لکّھوں
شاؔد کچھ بھی میں کہوں آج مگر بات ہے صاف
عمر بھر بھی نہ گنا پاؤں گا اس کے اوصاف
شمشاد شاؔد
🍁
0 Comments