اظہارِ تعزیت:(بزمِ افسانہ)
ڈاکٹر فیروز عالم:
بہت بھاری دل کے ساتھ یہ اطلاع دے رہا ہوں کہ پروفیسر بیگ احساس صاحب اب ہمارے درمیان نہیں ہیں۔ اِنَّالِلّٰہ وَاِنَّااِلَیہِ رَاجِعُون۔ افسوس، اردو افسانے کی ایک قدآور شخصیت ہمارے درمیان سے اٹھ گئی۔ اللّٰه مرحوم کی مغفرت فرمائے ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور لواحقین کوصبرجمیل عطا فرمائے۔ آمین
پروفیسر بیگ احساس کی نمازِ جنازہ عائشہ مسجد، پیرا ماؤنٹ ہلس کالونی، ٹولی چوکی، حیدرآباد میں عشا کی نماز کے فوری بعد ہوگی۔ تدفین پیراماؤنٹ ہلس کالونی سے متصل قبرستان، ٹولی چوکی میں ہوگی۔
محسن خان:
پروفیسر بیگ احساس سابق صدر شعبہ اردو جامعہ عثمانیہ و یونیورسٹی آف حیدر آباد نے ابھی ابھی یعنی ۸/ ستمبر بروز چہارشنبہ ۲۱ صبح ساڑے دس بجے آخری سانس لی۔ان للہ وانا الیہ راجعون
وہ گذشتہ پندرہ روز سے شریک دواخانہ تھے۔۷ ستمبر کو برین ہیمریج ہوا تھا۔
اللہ تعالٰی مرحوم کی مغفرت فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔۔۔ آمین
ڈاکٹر نور الامین:
انا للہ و انا الیہ راجعون اللہ مرحوم کو غریق رحمت فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین ثمہ آمین
اردو افسانہ اور ذاتی ناقابل تلافی نقصان ان دونوں سالوں کو میں زندگی کے دو سیاہ سال کہتا ہوں۔۔۔ اللہ رب العزت تمام مرحومین کی مغفرت فرمائے آمین ثمہ آمین
غضنفر:
ایک اچھا افسانہ نگار، ایک اہم فکشن پارکھی اور ایک بے باک صحافی جس نے ایک بھری محفل میں کہا تھا کہ
" اب وقت آگیا ہے کہ نقاد کی موت کا اعلان کر دیا جائے۔"
ہم سے آج رخصت ہوگیا۔
اب ایسا کہاں سے لائیں گے؟
خدا پروفیسر بیگ احساس کو جنت میں جگہ عطا فرمائے
طاہر انجم صدیقی:
یقیناً یہ شمس الرحمن فاروقی صاحب کے اس جملے کا ردِ عمل ہوگا کہ کہانیاں مرچکی ہیں اب ان کے کفن دفن کا انتظام کرنا چاہئے۔
بیگ احساس صاحب کی بیباکی کو سلام کہ انہوں نے وقت کے بڑے نقاد سے خوف نہیں کھایا۔
نگار عظیم:
انا للہ واناالیہ راجعون اللہ مغفرت کرے اللہ سفر آسان کرے اردو دنیا نے ایک بڑا ادیب کھو دیا۔ انہیں ادب میں ہمیشہ یاد رکھا جائےگا اللہ بیگ صاحب کے اہل و ایال شاگرد اور تمام محبت کرنے والوں کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین یا رب العالمین
قیوم اثر:
”قلم،کاغذ،سیاہی کا تصور چھوڑ جاؤں گا۔۔۔
میں اپنے وارثوں کے واسطے گھر چھوڑ جاوں گا۔“
۔۔ق۔ا۔۔
اور۔۔۔
ہوا ایسا ہے۔کل ہی سے دل کی دھڑکنیں دھیمی کبھی تیز ہوتی رہیں۔ایسا بھی لگتا تھا کہ انھیں رکنا ہے۔آج وہ سہمی سہمی سی لگیں۔ اردو افسانہ کا معتبر اور قد آور نام تاریخ کی کتابوں کی زینت بن گیا۔ زبان و بیان اور لفظوں کے کساؤ پر انھیں بڑی دسترس رہی۔صاف گو اور اصلاحی مزاج رکھتے تھے۔ یہ خلا، پر نہیں ہوگا ایسا تو نہیں لیکن روٹھنے کا غم دیر تک ستائے گا۔زبردست قلم کار کا اس طرح نکل جانا گویا کچھ دیر ایک خاندان کا خاموش ہوجانا ہے۔
اللہ اپنے رسولﷺ کے صدقے انھیں جنت میں اعلی مقام دے۔بال بال مغفرت فرمائے۔ لواحقین کو صبر جمیل عطا ہو اورہم جیسے ادبی وارثین کی ہمت بھی نہ ٹوٹنے دے۔
شریک غم۔۔۔ہم سب۔۔۔
ڈاکٹر صفیہ بانو:
آج ہم نے اچھے افسانہ نگار،نقاد، تبصرہ نگار،اور ایک اچھے انسان کو ہمیشہ کے لیے کھو دیا، ان سے ابھی بہت کچھ سیکھنا باقی تھا نئی نسل کے لکھنے والے خسارے میں ایسا محسوس کر رہے ہیں اللہ مرحوم بیگ احساس صاحب کو جنت نصیب ہو اور ان کے گھر والوں کو صبر و جمیل عطا ہو۔آمین
فریدہ انصاری:
إنا لله وإنا إليه راجعون اللهم اغفر لها وارحمها وأسكنها فسيح جنانك يا رب العالمين۔
ادب کی انگوٹھی سے ایک نگینہ کھو گیا!
اللہ رحم فرمائے آمین
محمد سراج عظیم:
ایک افسوس ناک خبر
جیسا کہ آپ کے علم میں ہے۔ دنیائے اردو ادب کی مشہور شخصیت پروفیسر بیگ احساس پچھلے پندرہ روز سے ہسپتال میں داخل تھے۔ کل ان کو برین ہیمریج اور ہارٹ اٹیک ہوا جس کی وجہ سے وہ کومہ میں چلے گئے۔ مگر آج صبح ساڑھے دس بجے داعی اجل کو لبیک کہا اور اپنے مالک حقیقی سے ملنے کے لئے کوچ کر گئے۔
اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ
بچپن گروپ، بچپن گروپ ایڈمن پینل کے لئے اور راقم کے لئے بہت گہرا صدمہ ہے۔ اردو ادب کا ایک اور ستارہ ڈوب گیا۔
بیگ احساس ایک بہترین افسانہ نگار، ناول نگار، نقاد اور محقق تھے۔ افسانوی دنیا میں ان خلاء کو پورا کرنا ممکن نہیں مگر ان کی تخلیقات بیگ احساس صاحب کو اردو ادب میں زندہ رکھیں گی۔
ہم بچپن گروپ، بچپن گروپ ایڈمن پینل اور اپنی جانب سے پروفیسر بیگ احساس کی مغفرت کی دعا کرتے ہیں ہم دعا کرتے ﷲ رب کریم بیگ احساس صاحب کے درجات بلند فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے۔ نیز ان کے اہل خانہ اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔
بچپن گروپ پروفیسر بیگ احساس کے انتقال پر ان کے اہل خانہ کے غم میں برابر کا شریک رہتے ہوئے اپنی تعزیت پیش کرتا ہے۔
ڈاکٹر فریدہ بیگم:
نہ یقین ہورہا نہ ہمت ہورہی کہ محترم بیگ احساس صاحب کے اس سانحہ کو قبول کریں۔ایسی شخصیات ہزاروں برس میں پیدا ہوتی ہیں ذاتی طور پر بہت مخلص اور محبت کرنے والے استاد محترم سے ہم محروم ہوگئے۔۔افسوس۔۔
انا للله وانا اللہ راجعون
اردو ادب کی ناقابل فراموش عظیم شخصیت۔۔۔افففف۔۔اللہ تعالی ان کی مغفرت فرمائے جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین یا رب العالمین۔۔
حسین الحق:
اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے آمین
دل دماغ کام نہیں کر رہا ہے، یقین نہیں آ رہا ہے کہ ایسا ہو گیا مگر خبر متواتر سمجھا رہی ہے کہ یقین کر لو۔۔۔ افسوس صد افسوس
معین الدین عثمانی:
آسمان علم وادب کا روشن ستارہ آج ہم سب کو سوگوار کرکے روپوش ہوگیا۔
اللہ تعالیٰ بیگ احساس کی مغفرت فرمائے اور متعلقین کو صبر جمیل عطا نوازے۔
مختارخان:
بیگ احساس صاحب کا اس طرح سے چلے جانا اُردو ادب کے لیے بہت بڑا خسارہ ہے۔۔۔
مجھے ان کی لکھی کہانیاں خوب پسند ہے۔ اُنکی کہانیوں میں معاشرہ کی تلخ حقیقت کا بیان بہت ہی بیباکی کے ساتھ آیا ہے۔۔ اس کے باوجود اُنکا اندازِ بیان کچھ اس طرح ہے کہ وہ کہیں لاؤڈ نہیں ہوتے۔۔۔
معاشرتی سطح پر آئی تنزلی کو اُنہوں نے بارہا اپنی کہانیوں کا موضوع بنایا ہے۔
وہ معاشرہ میں آئے بگاڑ کو شعوری سطح پر خوب سمجھتے تھے اسی لیے اپنی کہانیوں میں اسے پوری شدّت کے ساتھ بیان بھی کر پاتے تھے۔
فیروز صاحب سے اُن کے تعلق سے اپڈیٹس ملا کرتی تھی۔
ہم نے اپنے عہد کا ایک عظیم فن کار کھو دیا۔۔۔
پچھلے دنوں انکی لکھی دو کہانیوں پر میں نے تبصرے کیے تھے۔۔۔اس دوران ان سے رسمی بات ہوئی تھی۔۔۔ خدا مرحوم کے اہلِ خانہ کو صبر عطا فرمائے۔۔
سلیم خان فیض پوری:
"اناللہ واناعلیہ راجعون"
بیگ احساس صاحب ایک ممتاز افسانہ نگار اور اچھے انسان تھے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور غریق رحمت کرے۔ آمین۔
رخسانہ نازنین:
ایک اور زخم تازہ ملا!
جس دن سے خبر ملی تھی کہ پروفیسر بیگ احساس صاحب اسپتال میں ایڈمیٹ ہیں اور سانس کی تکلیف میں مبتلا ہیں۔ اسی دن سے دل گھبرا رہا تھا، اللہ تعالی کے حضور شفایابی کی دعائیں جاری رہیں مگر اجل کا بلاوا آگیا تھا۔ انہوں نے لبیک کہا۔ دنیائے ادب کے باسیوں اور ہزاروں شاگردوں کو الوداع کہہ گئے۔
کل سے ہی جب ان کے انتقال کی خبر آئی۔ پھر تردید کی گئی۔ دل بھاری تھا۔ اللہ تعالی سے خیر کی دعا کرتی رہی مگر آج وہ اندوہناک خبر مل ہی گئی۔ مشیت الہی ہے۔ اللہ تعالی انکی مغفرت فرمائے اور کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔
بزم افسانہ کے پہلے یادگار ایونٹ میں پروفیسر بیگ احساس صاحب بڑے فعال رہا کرتے تھے۔ ان کی شگفتہ مزاجی سے سبھی محظوظ ہوتے۔ ڈاکٹر شہروز خاور اور ڈاکٹر فریدہ بیگم کے تبصروں کی ستائش کرتے۔
ان کا افسانہ "دخمہ" پیش کیا گیا تو بزم پر سحر طاری ہوگیا۔ انہوں نے سبھی کے تاثرات پر ممنونیت کا اظہار کیا۔ اپنا افسانوی مجموعہ "دخمہ" بھیجنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ دوسرا افسانہ "کھائی" بھی بے حد سراہا گیا۔ ساہتیہ ایوارڈ یافتہ پروفیسر بیگ احساس دکن کی شان تھے۔ آج ہم نے ایک گوہر نایاب کھو دیا ہے۔ اس دیڑھ سال کے عرصے میں "بزم افسانہ" نے اپنے کئی رفیقوں کی جدائی کا صدمہ جھیلا۔ آج ایک اور زخم تازہ ملا ہے۔ اللہ تعالی تمام مرحومین کی مغفرت فرمائے اور بہترین نعم البدل عطا کرے۔
غیاث الرحمان:
بے انتہا صدمہ ھوا۔ ھم نے آج ایک عزیز دوست, اور اردو ادب کا ایک اھم ستون کھو دیا۔ اللّہ ان کی مغفرت کرے۔ جنت الفردوس میں اعلٰی مقام عطاء کرے اور متعلقین کو صبر جمیل عطاء فرمائے۔
اقبال نیازی:
اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت کرے۔۔۔ ایک اچّھا فکشن نگار، فکشن کا سلجھا ہوا ناقد ہمارے درمیان سے اٹھ گیا۔۔۔ کرشن چندر پر اُن کا تحقیقی کام یاد رکھا جائے گا۔۔۔ بیگ احساس کو اُردو فکشن کی تاریخ بھول نہیں سکے گی۔۔۔ اللہ اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔۔۔ آمین
مشتاق احمد نوری:
اک وہ نہیں تو شہر میں ہو بولنے لگا
بیگ احساس آپ کا جانا رلاگیا سب کو
مشتاق احمد نوری
یہ 2018 کی بات ہے۔ میں پدم شری مجتبیٰ حسین کی دعوت پر حیدر آباد گیا انہوں نے بہت سا پروگرام قبل سے طے کر رکھا تھا ان میں ایک پروگرام بھائی بیگ احساس کی جانب سے تھا۔ اردو بھون حیدر آباد میں میرے اعزاز میں ایک فنکشن رکھا گیا تھا۔ اخبار میں خبر آگئی تھی۔میں مجتبیٰ حسین کے ساتھ پہونچا ٹھیک اسی وقت پروفیسر بیگ احساس بھی گاڑی سے اترے۔ہم دونوں ایک دوسرے سے لپک کر گلے ملے میں ان کے سینے میں خلوص کی گرمی محسوس کرتا رہا۔پھر مجھے پکڑے ہوئے ہال میں لے آئے۔ بیگ احساس کی صدارت میں پروگرام شروع ہوا۔ مجتبی بھائی نے میرا مبالغہ آمیز تعارف پیش گیا۔ ایم پی عزیز احمد صاحب نے گلدستہ پیش کیا اور بیک احساس نے شال پوشی کرکے اپنی محبت کا اظہار کیا۔ اتنی محبت سے یہ پروگرام ہوا کہ میں بتا نہیں سکتا۔ بہت سے محترم سامعین تشریف فرما تھے۔ شبینہ فرشوری، مسٹر فرشوری، تسنیم جوہر، رؤف خیر وغیرہ۔ اتنی محبت نصیب ہوئی کہ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ بیگ احساس کی محبت بھری صدارتی تقریر میں اب بھی نہیں بھولا ہوں۔ اتنے مخلص اور محبت کرنے والے لوگ کم ہوتے ہیں۔
انہیں ان کے افسانوی مجموعہ ” دخمہ“ پر ساہتیہ اکادمی کا پروقار ایوارڈ بھی ملا۔ ان کی تخلیقی پذیرائی بھی خوب ہوئی لیکن ان کی انکساری قائم رہی وہ ہمیشہ لوگوں سے گرم جوشی سے ملتے۔ ان کی مدھم مسکراہٹ لوگوں کو مسحور کر لیتی۔ان کی شخصیت کا طلسم ملنے والوں کو ان کا گرویدہ بنائے رکھتا۔
وہ حیدر آباد سنٹرل یونیورسیٹی میں اردو کے پروفیسر تھے۔بہترین استاد کے ساتھ معتبر افسانہ نگار ایک بہترین مدیر اور اچھے منتظمين کار بھی تھے۔
حیدر آباد میں مجتبی حسین کے بعد بیگ احساس ہی وہ شخص تھے جن کی وجہ سے اس خطے کا وقار قائم تھا۔ بہت دنوں سے بیمار تھے۔ پندرہ دنوں سے تو وینٹی لیٹر پہ تھے۔ کل اچانک انہیں دل کادورہ بھی پڑا۔ ڈاکٹروں نے Brain dead ڈکلیئر کردیا لیکن امید کی کرن جھلملا رہی تھی۔ کل ہی ان کی موت کی خبر وائرل ہوگئی بہت لوگوں نے اظہار تعزیت بھی کردیا۔ میں نے انہیں کے فون نمبر پہ فون کیا خیریت دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ کریٹیکل کنڈیشن ہے۔ کسی بھی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ لوگ معجزے کی امید میں تھے لیکن اللہ انہیں اپنی قربت نصیب کرنا چاہتا تھا اس لیے وہ آج آخرکار اللہ کو پیارے ہوگئے۔
ادب خصوصاً فکشن کے لیے ان کاجانا ایک ناقابل تلافی نقصان ہے۔ پوری ادبی دنیا مغموم ہے جیسے کوئی اپنا چلاگیا ہو۔اللہ انکی مغفرت فرمائے لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے اور ہم لوگوں کے قلب کو بھی سکون سے نوازے۔
غوث ارسلان:
ممتاز افسانہ نگار اور استاد پروفیسر بیگ احساس ولد جناب مرزا خواجہ حسن بیگ مرحوم کا بعمر73سال انتقال ہوا۔پروفیسر بیگ احساس کا اصل نام محمد بیگ تھا۔
10 اگست 1948 کو ولادت ہوئی۔ عثمانیہ یونی ورسٹی سے1975 میں بی اے اور1979میں ایم اے کیا۔ 1985 میں یونی ورسٹی آف حیدرآباد سے پی ایچ ڈی کیا۔ 1984 میں بحیثیت لکچرر اردو عثمانیہ یونی ورسٹی سے وابستہ ہوئے۔ 2000 میں پروفیسر کے عہدہ پر ترقی ملی۔ 2000 سے2006 تک صدر شعبہ رہے۔2007سے2013 تک سنٹرل یونی ورسٹی حیدرآباد میں پروفیسر اور صدر شعبہ اردو خدمات انجام دیئے۔
ہند و پاک میں اردو کے ممتاز و مایہ ناز افسانہ نگار کی حیثیت سے شناخت تھی افسانوں کے تین مجموعے خوشہ گندم، حنظل اور دخمہ شائع ہوے۔ دخمہ پر2017میں ساہتیہ اکیڈیمی نے انعام سے نوازا، مخدوم محی الدین کے بعد پروفیسر بیگ احساس حیدرآباد سے ساہتیہ ایوارڈ پانے والے دوسرے ادیب تھے۔
دیگر تصانیف میں شور جہاں، کرشن چند ر فن و شخصیت اور شا ذ تمکنت پر مونو گراف شامل ہیں۔ حیدر آباد لٹریری فورم کے معتمد عمومی اور صدر رہے۔ ادارہ ادبیات اردو کے رکن عملہ اور ترجمان سب رس کے تا حال ایڈیٹررہے۔ ساہتیہ اکیڈیمی کی مشاورتی کمیٹی براے اردو کے رکن رہے۔ 2005 سے 2012 تک بھارتیہ گیان پیٹھ ایوارڈ کمیٹی کے رکن رہے اس کے علاوہ مختلف جامعات کی کمیٹیوں اور انجموں کے رکن بھی رہے۔ تلنگانہ اردو اکیڈیمی کی جانب سے مخدوم ایوارڈ براے کارنامہ حیات دیا گیا۔
پاکستان، سعودی عرب اور انگلینڈ کا دورہ کیا۔ ہندستانی بزم اردو ریاض، سعودی عرب نے پروفیسر بیگ احساس کے اعزاز میں تقریب منعقد کرکے ڈیجیٹل ساونیر جاری کیا۔ پی ایچ ڈی اور ایم فل کے لیے ہندستان کی متعدد جامعات میں پروفیسر بیگ احسا س کی شخصیت اور فن پر کئی تحقیقی مقالے لکھے گئے۔ ادبی رسالوں نے خصوصی نمبر اور گوشے شائع کئے۔ ان کے افسانے ہندستان کی کئی جامعات میں گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن کے نصاب میں شامل ہیں۔ صحافت سے بھی گہرا رشتہ تھا۔ حیدرآباد کے روزناموں میں کالم نگاری کی۔
تنویر اشرف:
▪ساہتیہ اکادمی اعزاز یافتہ
▪معروف افسانہ نگار
⚫ پروفیسر بیگ احساس ⚫
اصلی نام : محمد بیگ
پیدائش : 10 اگست 1948 || حیدر آباد, تلنگانہ
وفات : 8 ستمبر 2021ء
ایوارڈ : ساہتیہ اکادمی ایوارڈ(2017)
عثمانیہ یونیورسٹی و حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی کے سابق صدر شعبہ اردو پروفیسر بیگ احساس جو بیک وقت محقق، نقاد، استاد ادیب اور مقرر ہیں۔ پروفیسر بیگ احساس نے اپنے ادبی سفر کا آغاز افسانہ نگاری سے کیا اور گذشتہ تین دہائیوں میں انہوں نے جدیدڈکشن میں ایسی کہانیاں لکھیں ہیں کہ اردو جدید افسانہ کے موضوع پر گفتگو بیگ احساس کے حوالے کے بغیر ادھوری رہ جائے گی۔
’’حنظل‘‘ (کہانیوں کا مجموعہ) ان کے فن کا روشن نمائندہ ہے۔ تدریسی صلاحیت میں یہ اپنی انفرادیت رکھتے ہیں۔ ایم اے ایم فل کے علاوہ پی ایچ ڈی کی سطح پر ان کے شاگردوں میں چند ایک نامور شاعر وادیب بھی ہیں۔ ان کے مقالہ ’’ کرشن چندر شخصیت اور فن ‘‘ کے حوالے سے بیگ احساس کے تحقیقی معیار کو دنیائے ادب نے تسلیم کیا ہے۔ جامعہ عثمانیہ کی فاصلاتی تعلیم کے نصاب کی ترتیب اور دیگر اداروں کی نصابی کتب کی ترتیب کے حوالے سے بیگ احساس کو ماہرین تعلیم کی صف میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ فن افسانہ نگاری کے میدان میں اپنے آپ کو منوانے کے بعد بیگ صاحب نے تنقید کے میدان میں قدم رکھتے ہی اپنی سنجیدہ متوازن، متنی تنقیدکے پیمانوں سے معمور مدلل اور بصیرت افروز نکات کے حوالے سے ہندوستان کے شمال اور جنوب دونوں سمتوں میں اعتبار واحترام کے حامل ہوگئے۔
بشکریہ : ریختہ
0 Comments