Ticker

6/recent/ticker-posts

آہ! سلطان سبحانی، صاحبِ طرز ادیب و شاعر سلطان سبحانی نہیں رہے

آہ! سلطان سبحانی
صاحبِ طرز ادیب و شاعر سلطان سبحانی نہیں رہے

مالیگاؤں: ملک گیر شہرت کے حامل معروف ادیب، شاعر، سلطان سبحانی طویل علالت کے بعد 24، 25. اگست 2021 کی درمیانی شب میں خالق حقیقی سے جا ملے، انا للہ وانا الیہ راجعون
سلطان سبحانی ترقی پسند تحریک سے وابستہ ایک صاحب طرز ادیب، شاعر ،صحافی اور مصور کی حیثیت سے بر صغیر ہند وپاک میں مشہور تھے، افسانوں کے کئی مجموعے، ادب اطفال کی کتابوں، ماہنامے ہمزباں اور نشانات، انگنت کتابوں اور ماہنامہ شاعر ممبی کے سرورق آپ کی ادبی صحافت کے انمنٹ نقوش ہیں، ماضی میں آپ کی ادبی خدمات پر ایم فل اور حال ہی میں پی ایچ ڈی ہوئی ہے،
آج بروز بدھ25 اگست 2021 صبح دس بجے شہر کے بڑا قبرستان میں تدفیں عمل میں آئے گی،
انجمن ترقی اردو ھند شاخ مالیگاوں کے صدر واراکین اپنے گہرے رنج وغم کا اظہار کرتے ہوئے مرحوم کے لے دعاے مغفرت کرتے ہیں اور پسماندگان کے غم میں شریک رہ کر انھیں صبر کی تلقین کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ، مرحوم کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے، آمین
شریک غم: خیالؔ انصاری،
مدیر خیراندیش مالیگاؤں

اصل نام: محمد سلطان عبدالسبحان
ادبی نام: سلطان سبحانی
تاریخ پیدائش: یکم جون 1942
تاریخ وفات: 25 اگست 2021
مقام پیدائش: مالیگاؤں (مہاراشٹر)
آبائی وطن: بھنی پورہ، بنارس (یو پی)
تعلیم: معمولی
پیشہ: تجارت
پہلا افسانہ:
کانپتی کرنیں ( مطبوعہ ماہانہ "شان ہند" دہلی 1954)
بچوں کی پہلی کہانی: چور کی غلط فہمی (مطبوعہ ماہانہ "پھلواری" دہلی 1954)
نثر نگاری کے علاوہ دیگر مشاغل: شاعری اور مصوری
پاکستان میں ضبط شدہ افسانہ:
"چابک بدست امام" (مطبوعہ تیسری دنیا کا ادب "احتساب" لاہور، ستمبر 1979 ـــایڈیٹر عبداللہ ملک)
ادارت:
  • ماہنامہ "نشانات" مالیگاؤں(1974 سے 1976)
  • ماہنامہ "ہم زباں" مالیگاؤں(1977 سے 1980)
تصانیف:
  • اجنبی نگاہیں(افسانوی مجموعہ 1966)
  • شاعری کی دوکان(طنز و مزاح 1968)
  • راستے بھی چلتے ہیں(افسانوی مجموعہ 1969)
  • حکم نامہ(شعری مجموعہ 1985)
  • میرا کھویا ہوا ہاتھ(افسانوی مجموعہ 1987)
  • بدن گشت بادبان(افسانوی مجموعہ 1990)
  • شام کی ٹہنی کا پھول(افسانوی مجموعہ 1999)
  • مافوق الفطرت(بچوں کا ناول 2001)
  • گولر کا پھول(بچوں کا ناول 2005)
  • شمائلہ(بچوں کا ناول 2007)
  • سکۂ خاک(ادبی شخصیات پر تبصرے)
▪️▪️▪️▪️▪️▪️
سلطان سبحانی کی شاعری میں لفظ تخلیقی انداز میں استعمال ہوا ہے، امیجیز تازگی کے مظہر ہیں اور چونکہ بات دل کی تہوں سے نکلی ہے اس لیے اس کا اثر بھی غیر معمولی ہے۔ مجھے توقع ہے کہ ان کے اس مجموعہ کلام کا سواگت بڑے پیمانے پر ہوگا اور سلطان سبحانی کو اردو شاعری کی نئی آوازوں میں ایک اہم آواز قرار دیا جائے گا۔
وزیر آغا
سرگودھا (پاکستان)
شعری مجموعہ "حکم نامہ" کے پیش لفظ سے مقتبس ــ
سلطان سبحانی

سلطان سبحانی مالیگاؤں

سلطان سبحانی  افسانہ نگار و شاعر  کے ھمراہ ڈاکٹر نخشب مسعود ۔ پرانی یادگار تصویر۔
سلطان سبحانی کے ھمراہ ڈاکٹر نخشب مسعود

سلطان سبحانی : رخِ حیات کی ایک جھلک
(2011ء میں ڈاکٹر مشاہد رضوی کے لکھے گئے ایک مضمون سے ماخوذ)
محترم سلطان سبحانی یکم جون 1942ء کو مالیگاؤں میں پیدا ہوئے، تعلیم معمولی حاصل کی ، لیکن خداداد ذہانت کے ہوتے جب اپنے شعور و فکر کو شعر و ادب کی خدمت کے لیے وقف کیا تو اہلِ ادب محوِ حیرت رہ گئے ۔ آپ کی زنبیلِ حیات میں افسانہ، ناول، طنز و مزاح، کہانی، نقد و نظر، ادبِ اطفال اور شاعری وغیرہ اصناف پر مشتمل ایک درجن سے زائد کتب جگمگا رہی ہیں ۔ جن میں ’’اجنبی نگاہیں ، شاعری کی دکان، راستے بھی چلتے ہیں، حکم نامہ، میرا کھویا ہوا ہاتھ، بدن گشت بادبان، شام کی ٹہنی کا پھول، مافوق الفطرت، گولر کے پھول، شمائلہ اور سکۂ خاک‘‘ … قابلِ ذکر ہیں۔ ایک افسانہ ’’چابک بہ دست امام‘‘ 1979ء میں جب تیسری دنیا کا ادب نمبر ماہ نامہ ’’احتساب‘‘ لاہور میں طبع ہوا تو پاکستانی حکومت نے اس کی کاپیاں ضبط کرلیں ۔ علاوہ ازیں آپ نے ماہ نامہ ’’نشانات‘‘ مالیگاؤں کی 1974ء سے 1976ء تک اور ماہ نامہ’’ ہم زباں‘‘ مالیگاؤں کی 1977ء سے 1980ء تک کامیاب ادارت بھی کی یہ دونوں رسائل ادبی دنیا کے معتبر جریدوں میں نمایاں حیثیت کے حامل کہلاتے تھے۔ سلطان سبحانی شہرِ ادب مالیگاؤں کے وہ منفرد فن کار ہیں جن کی کتابوں پر جتنے انعامات، اعزازات اور ایوارڈز ملے ہیں وہ شہر کے کسی دوسرے فن کار کے حصے میں نہیں آ پائے ۔ آپ کے بعض افسانوں کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ ہندی ، مراٹھی ، انگریزی اور گجراتی جیسی زبانوں میں ان کے تراجم بھی ہوچکے ہیں۔ حال ہی میں عبدالعظیم صاحب نے آپ کے افسانوں کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے ممبئی یونی ورسٹی کے شعبۂ اردو سے ایم۔ فِل۔ کی باوقارڈگری حاصل کی ہے۔ (محترم مبین نذیر صاحب نے سلطان سبحانی پر ڈاکٹریٹ کی ہے) سلطان سبحانی کو مصوری سے بھی حد درجہ لگاؤ ہے آپ کی دو ایک تصانیف کو چھوڑ کر بقیہ کے سرورق آپ ہی نے بنائے ہیں۔




Post a Comment

0 Comments