گذشتہ دنوں فلسطین میں جاری بربریت کی منہ بولتی تصاویر سے متاثر ہوکر کہے گئے اشعار ــــ
🔘 شہروز خاور ـــــــــــ🔘
ــــــــــــ
ــ عجیب سودا ہے اقصیٰ کی بازیابی کا
🔘 شہروز خاور ـــــــــــ🔘
ــــــــــــ
ــ عجیب سودا ہے اقصیٰ کی بازیابی کا
دھویں میں لپٹی ہوئیں بے قرار تصویریں
ہیں کیسی کیسی نگاہوں پہ بار تصویریں
ہیں کیسی کیسی نگاہوں پہ بار تصویریں
ہُوا ہے شہرغزہ پھر جو شعلہ شعلہ ، دھواں
مچل رہا ہے لہو ، ضبط کھو رہی ہے زباں
جمال و زیب جہاں ، رشک گلستاں تھا کبھی
ہے کیا ستم کہ وہی دشت بے اماں ہے ابھی
مکین ارض مقدس کے بے مکاں لوگاں
نشان کوچۂ عظمت کے بے نشاں لوگاں
گزر رہے ہیں جو مقتل سے باری باری ابھی
انہیں کے پرکھوں سے قائم تھی شہریاری کبھی
یہ تیرہ بخت جو دنیا پہ آشکارا ہیں
یہ اہل تخت جو بے کس ہیں بے سہارا ہیں
یہ اہل تخت جو بے کس ہیں بے سہارا ہیں
یہ لوگ اپنی ہی بستی میں ہیں وطن سے دور
انھیں پتہ ہی نہیں حالت غیاب و حضور
انھیں ہمارے دلاسوں سے سو شکایت ہے
انھیں ہماری تسلی بھی اک شرارت ہے
ہر ایک شام الم سے نباہتے ہیں یہ لوگ
نوید صبح نہیں ــــ صبح چاہتے ہیں یہ لوگ
جو اِن کے دن ہیں قیامت تو رات آفت کی
سو داد بنتی تو ہے صبرو استقامت کی
ہیں ایسی ایسی نگاہوں میں یار تصویریں
نثار جن پہ ہزاروں ہزار تصویریں
وہ محو سجدہ جبینوں کی بے نیازی ہے
کہ آپ اپنی ہی مستی میں ہر نمازی ہے
رواں نسیم سحر گرچہ لوُ مطابق ہے
یہاں وہ گل ہیں جنھیں ہر فضا موافق ہے
دیار خستہ میں ننھی سی جاں ہے تخت نشین
یہ ملبے برج خلیفہ سے ہیں بلند ترین
یہ گرم جنگ ہیں یا کھیلتے ہیں کوئی کھیل
کسی کے ہاتھ ہے گوپھن کسی کے پاس غلیل
ہے رنگ ذوق شہادت سے لالہ زار یہ وقت
کہ شیر خوار بھی میدان میں ہیں سنگ بدست
ہنسی اڑاتے ہیں طفلاں پہاڑ قامت کی
یہ کررہے ہیں ادا رسم پھر امامت کی
اُدھر ہزاروں درندے ہیں مائل پیکار
اِدھر ہے باپ کے کاندھے ایک بیٹا سوار
اُدھر ہے دست قضا لبلبی دبائے ہوئے
اِدھر ہیں سینے کئی زخم آزمائے ہوئے
نہ خوف مرگ نہ غم خانماں خرابی کا
عجیب سودا ہے اقصیٰ کی بازیابی کا
لہو میں ڈوبی ہوئیں بے شمار تصویریں
ہیں کیسی کیسی نگاہوں پہ بار تصویریں
شیئر کرو کہ ہو اہل جہاں کا سینہ چاک
کہ خندہ زن ہے قیامت پہ منظر سفاک
خود آپ اپنی حقیقت کو آزماتی ہے
شہید کرکے یہاں موت منہ چھپاتی ہے
کہاں ہے ایسی مساوات مرد و زن کی مثال
کہ محو جنگ ہیں دونوں ہی رن میں حسب خصال
فسون عشق کا آدھا فسانہ عورت ہے
ستادہ مرد کے شانہ بہ شانہ عورت ہے
جنھیں ستم کو ضروری ہیں سیکڑوں ہتھیار
ہے جان لیوا انھیں نازنیں کی اک للکار
یہاں کی ماؤں کے جیسا جگر کہیں ہوگا؟
مجھے یقیں ہے یقیناً کہیں نہیں ہوگا
جبیں کو چوم کے ہنستی ہیں مسکراتی ہیں
کفن کو جان کے سہرا خوشی مناتی ہیں
اے بنت حوا ترے حوصلے پہ ہند نثار
ہے تیری جراءت بیباک سے امید بہار
سکوں ہے چہرے پہ اور غول غاصبوں کا ہے
تمہارے لب کا تبسم ہمیں طمانچہ ہے
اے بوڑھی مائی، غضب ہے عدو کو تیرا وجود
ہیں تیری چیخ سے لرزاں سگان کوئے یہود
دعا ہے بیٹی تری ہر مراد بَر آئے
دعا ہے بھائی ترا جیت کر ہی گھر آئے
عدو کو کم ہیں تبر، تیر، توپ اور شمشیر
ہے اہل حق کو بہت تابِ نعرۂ تکبیر
1 Comments
خوب، لا جواب نظم
ReplyDelete