انجمن ترقی اردو (ہند)نئ دہلی کے شکریے کے ساتھ۔۔۔۔
تبصرہ: سفینہ غزل (مجموعہ غزلیات)
شاعر:حنیف نجمی
تبصرہ: سفینہ غزل (مجموعہ غزلیات)
شاعر:حنیف نجمی
مرتب:ڈاکٹر مدحت الاختر
ضخامت:144صفحات
قیمت:150روپے
سن اشاعت:2019
پبلشر:الفاظ پبلی کیشن پھٹانااولی کامٹی،ضلع ناگپورمہاراشٹر441001-
تبصرہ نگار:ابراہیم افسرابراہیم افسر
دریں زمانہ رفیقے کہ خالی از خلل ست
صراحیِ مئے ناب و سفینہئ غزل ست
سے مستعار لیا ہے۔غزلیات کے اس مجموعے میں حنیف نجمی نے 105غزلیں اور 57متفرق اشعار شامل ہیں۔حنیف نجمی نثر اور نظم دونوں پر یکساں قدرت رکھتے ہیں۔ان کی تحریروں کو پڑھنے والوں کا ایک سنجیدہ حلقہ موجود ہے۔سفینہئ غزل کے مطالعے سے ان کی شعری کائنات کے دیدار جا بجا ہوتے ہیں۔ان کی غزلوں میں قومی یکجہتی،حب الوطنی،مناظرِ قدرت،میل میلاپ کی باتوں پر عالمانہ باتیں کہیں گئی ہیں۔ایسا بالکل نہیں کہ ان سے قبل ان موضوعات پر کسی نے قلم نہیں اٹھایا،بلکہ ہر شاعر نے اپنے دور کے حساب سے ان موضوعات میں تنوع پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔حنیف نجمی نے اپنی غزلوں میں خیالات کی طہارت کو مقدم رکھا ہے۔موصوف نے اپنی شاعری میں لوگوں کو جو پیغام دیا اس کا مقصد دلوں سے نفرتوں،قدورتوں کو مٹا کر ایک صالح معاشرے کی تعمیر کرنا ہے۔اس واسطے انھوں نے اپنی غزلوں میں کہا:
زندہ رکھ مجھ کو اگر میں ترے کچھ کام کا
اور مرا مرنا ضروری ہو تو مرنے دے مجھے
مجھ کو یہ دھن ہے کہ نکلے صلح کا رستہ کوئی
وہ سمجھے ہیں کہ دشمن سے ملا رہتا ہوں میں
میں انساں ہوں مری فطرت زمینی ہے میاں نجمی
بہت دن تک سر بام فلک میں رہ نہیں سکتا
حنیف نجمی کا مشاہدہ گہرا اور تجربہ وسیع ہے۔انھوں نے زندگی کی تلخ حقیقتوں سے نمبرد آزما ہونے کے بعد اپنے جذبات کو صفحہئ قرطاس کی زینت بنایا ہے۔ انھوں نے اپنی غزلوں میں سوال و جواب کے سلسلے کو سلیقگی اور خوب صورت لب و لہجے کے ساتھ پیش کیا ہے۔در اصل عشق،غزل کا خمیر ہے۔ان کی غزلوں میں بھی عشق کی چاشنی میں لپٹی ہوئی غزلیں موجود ہیں۔خالصتاًچندعشقیہ اشعار ملاحظہ کیجیے:
یہ روز روز کا ملنا بھی ٹھیک ہے لیکن
مزا تو یار تری کم نمائی دیتی ہے
شکر کر نجمی کہ مولا نے ترے محبوب کو
اس کہن سالی میں بھی اتنا حسین رہنے دیا
فقیر عشق ہیں اپنا کوئی ٹھکانا کیا
ہوا میں اُڑتے رہے پانیوں پہ چلتے رہے
ہوس پانے کی ہے کچھ اور نہ کھونا چاہتا ہوں میں
محبت میں تری مشہور ہونا چاہتا ہوں میں
بہر کیف!سفینہئ غزل میں حنیف نجمی نے مشکل اور آسان زمینوں میں غزلیں کہی ہیں۔ان کی غزلوں میں نغمگی اور تازگی کا احساس موجود ہے۔پورے مجموعے میں موصوف نے محبت کے نغنے گائے ہیں۔ زندگی کے احساس کو لفظوں کا لمس عطا کیا ہے۔حنیف نجمی نے کتاب کا انتساب بیٹے فیصل نجمی اور بیٹی امروز نجمی کے نام کیا ہے۔ لیکن حیران کُن بات یہ ہے کہ مدحت الاختر نے اس کتاب میں کہیں کوئی پیش لفظ یا مقدمہ نہیں لکھا ہے جس سے معلوم ہو سکے کہ یہ کتاب ترتیب دینے کی ضرورت کیوں کر پیش آئی۔ نہ ہی حنیف نجمی نے اس بات کی کہیں صراحت کی کہ اس کتاب میں ان کی منتخب غزلیں شامل ہیں یا یہ ان کا پہلا غزلوں کا مجموعہ ہے۔ فہرست کے بعد غزلیں پیش کی گئی ہیں۔ بہر حال میں حنیف نجمی کو اس شعری مجموعے کو منظرِ عام پر لانے کے مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
٭
0 Comments