نظم:وجود اور عدم کے کنارے پر
شاعر: رضا الدین اسٹالن
بنگلہ دیش
مترجم: خان حسنین عاقب
انڈیا
-------------------------------------

میں اور میرا دوست
محو خرام اور محو گفتگو تھے
ہماری گفتگو رواں دواں اور جاری تھی
رات کا سینہ چیرتے ہوئے
گلی کی ریل پیل
دونوں جانب بنے ہوئے مکانات
خوشیوں بھری روشنی سے جگمگا رہے تھے
گلی کے کنارے چھپا کے اڑاتے ہوئے
ہماری مدلل اور منطقی گفتگو سے نکلتی ہوئی
بجلیوں سے
چاند کی طلسماتی روشنی میں
شام کی ہوا چنگاریاں پیدا کررہی تھی
ہم دونوں وجود اور عدم کے نظریے پر
بحث کر رہے تھے
ہمارا خیال تھا کہ وجود ایک ارتقائی عمل ہے
جیومیٹری کے کسی سوال کی طرح
کسی نقطے کے اطراف
کھینچے گئے دائرے کے ارتقاء کی طرح
اور عدم کسی بھی وضاحت سے ماورا ہے
ہمارے دل میں ابدی خاموشی کی طرح
لیکن ہم دونوں میں سے کسی کو بھی
شاعرانہ تجزیہ پسند نہیں آیا
لہذا ہم نے اپنی گفتگو کا موضوع بدل دیا
ہم نے کہا کہ یہ رات بہت حسین ہے
ایسی رات تو محبت کے لیے نہایت موافق ہوتی ہے
میں نے کہا
ایک مرتبہ چاند کی روشنی کے موہ میں آکر میں نے پیاس کو چوما تھا
وہ طلسم اور وہ سحر
اب بھی میری آنکھوں، ہونٹوں اور دل کو کپکپا دیتا ہے:
میرا دوست بولا
لیکن جب میں نے
شام کا بوسہ لینے کی کوشش کی
تو میرا دل کسی خوفزدہ پرندے کی طرح
کاںپنے لگا
میری ہمت و جرات
میرے گلے میں پھنس کر رہ گئی
کسی غمگین بگلے کی طرح
چاند کی کیل سے لٹکے ہوئے
میں نے ہنستے ہوئے کہا
غیر شادی شدہ ہونے کی وجہ سے
ہمارے زمینی تجربات
مستقبل کے خزانے میں
مقفل ہیں
میرے دوست نے پوچھا
اس کی کیا ضمانت ہے
ہمارے خواب کا عروج
ہماری کم ہوتی دولت کے پیمانے سے جڑا ہوا ہے
ہماری خواہشات' چاتک' کی طرح اندھی ہیں
اپنی پیاس کے زیر اثر
تیسری دنیا کے شہری ہونے کی وجہ سے
ایک بے فیض غرور رکھتے ہوئے
ہم بغیر کسی مقصد کے بھٹک رہے ہیں
نہ ہوا ہے نہ کھانا نہ پانی
اچانک ہمیں احساس ہوا
کہ ہم ایک بالکل ہی اجنبی دنیا میں چلے آئے ہیں
رات بہت تاریک ہے
طاؤس کے پروں کی طرح
چند گھروں سے آنے والی روشنیاں
زرد ہوچکی ہیں
میں نے دلیل برائے دل دیتے ہوئے کہا
کیا ہمیں اب بھی یہ کہنے کی ضرورت ہے
کہ یہ پر تشکیک معاشرہ
ہی اس کے لئے ذمہ دار ہے
میرا دوست بولا
یہ کہنے کی چنداں ضرورت نہیں
ہر روز ہم سرمایہ داری کے قحبہ خانے میں
مدعو کیے جاتے ہیں
ہم اقوام متحدہ کے ہونٹوں پر بنے
تل کی تعریف کرتے ہیں
مملکت شعور کی حدود میں
انسانیت کے خلاف بڑھتے جرائم کا
ہم روز مشاہدہ کرتے ہیں
ہماری گزرگاہ کے نزدیک
مکانات اور درخت
نہایت اکیلے اور افسردہ دکھائی دے رہے تھے
ایک ہیبت ناک اداسی
ہماری جانب پھن کاڑھے ہوئے تھی
میں نے کہا
کیا تم نے محسوس کیا
کہ نا دانستہ طور پر
ہم سیاست کی حدود میں چلے آئے ہیں
جو ہمارے وجود کے لئے ایک لازمی امر ہے
کسی طرح لمحہ ء موجود میں
ہمارے سوالات ان لوگوں سے ہم آہنگ ہیں
جو ایمو Emu کا گانا سننے کے لئے ساری رات رکے رہتے ہیں
جو راتوں اور دنوں کو مزید یادگار بنانے کے لیے
سخت محنت کرتا ہے
جہاں آبنوسی حسن کی ملکائیں
اپنے بچوں کو شیطانی سمندر کی کہانیاں سناتی ہیں
جہاں ہیروں سے سجے ہرن
عنبر کی زمین پر کھیلتے ہیں
دیکھو ہمارے خیالات ان لوگوں سے کتنے ملتے جلتے ہیں
میں یہ کہتے ہوئے خوشی کے مارے تقریبا چیخ پڑا
کہ اب وقت آگیا ہے
کہ ہم نظریہ کو دریافت کرلیں
لیکن میرا دوست خوفزدہ لگ رہا تھا
اس نے کہا
جانتے ہو،
بے انتہا غم یا خوشی کی کیفیت میں
مجھ پر سکتہ طاری ہو جاتا ہے
اور اس لمحے کوئی بھی شخص
کسی بھی قسم کا فیصلہ لینے کے لئے
انتظار نہیں کرتا
تب مجھے احساس ہوا
کہ ہمیں یہاں سے واپس لوٹ جانا ہے.......
شاعر: رضا الدین اسٹالن
بنگلہ دیش
مترجم: خان حسنین عاقب
انڈیا
-------------------------------------
میں اور میرا دوست
محو خرام اور محو گفتگو تھے
ہماری گفتگو رواں دواں اور جاری تھی
رات کا سینہ چیرتے ہوئے
گلی کی ریل پیل
دونوں جانب بنے ہوئے مکانات
خوشیوں بھری روشنی سے جگمگا رہے تھے
گلی کے کنارے چھپا کے اڑاتے ہوئے
ہماری مدلل اور منطقی گفتگو سے نکلتی ہوئی
بجلیوں سے
چاند کی طلسماتی روشنی میں
شام کی ہوا چنگاریاں پیدا کررہی تھی
ہم دونوں وجود اور عدم کے نظریے پر
بحث کر رہے تھے
ہمارا خیال تھا کہ وجود ایک ارتقائی عمل ہے
جیومیٹری کے کسی سوال کی طرح
کسی نقطے کے اطراف
کھینچے گئے دائرے کے ارتقاء کی طرح
اور عدم کسی بھی وضاحت سے ماورا ہے
ہمارے دل میں ابدی خاموشی کی طرح
لیکن ہم دونوں میں سے کسی کو بھی
شاعرانہ تجزیہ پسند نہیں آیا
لہذا ہم نے اپنی گفتگو کا موضوع بدل دیا
ہم نے کہا کہ یہ رات بہت حسین ہے
ایسی رات تو محبت کے لیے نہایت موافق ہوتی ہے
میں نے کہا
ایک مرتبہ چاند کی روشنی کے موہ میں آکر میں نے پیاس کو چوما تھا
وہ طلسم اور وہ سحر
اب بھی میری آنکھوں، ہونٹوں اور دل کو کپکپا دیتا ہے:
میرا دوست بولا
لیکن جب میں نے
شام کا بوسہ لینے کی کوشش کی
تو میرا دل کسی خوفزدہ پرندے کی طرح
کاںپنے لگا
میری ہمت و جرات
میرے گلے میں پھنس کر رہ گئی
کسی غمگین بگلے کی طرح
چاند کی کیل سے لٹکے ہوئے
میں نے ہنستے ہوئے کہا
غیر شادی شدہ ہونے کی وجہ سے
ہمارے زمینی تجربات
مستقبل کے خزانے میں
مقفل ہیں
میرے دوست نے پوچھا
اس کی کیا ضمانت ہے
ہمارے خواب کا عروج
ہماری کم ہوتی دولت کے پیمانے سے جڑا ہوا ہے
ہماری خواہشات' چاتک' کی طرح اندھی ہیں
اپنی پیاس کے زیر اثر
تیسری دنیا کے شہری ہونے کی وجہ سے
ایک بے فیض غرور رکھتے ہوئے
ہم بغیر کسی مقصد کے بھٹک رہے ہیں
نہ ہوا ہے نہ کھانا نہ پانی
اچانک ہمیں احساس ہوا
کہ ہم ایک بالکل ہی اجنبی دنیا میں چلے آئے ہیں
رات بہت تاریک ہے
طاؤس کے پروں کی طرح
چند گھروں سے آنے والی روشنیاں
زرد ہوچکی ہیں
میں نے دلیل برائے دل دیتے ہوئے کہا
کیا ہمیں اب بھی یہ کہنے کی ضرورت ہے
کہ یہ پر تشکیک معاشرہ
ہی اس کے لئے ذمہ دار ہے
میرا دوست بولا
یہ کہنے کی چنداں ضرورت نہیں
ہر روز ہم سرمایہ داری کے قحبہ خانے میں
مدعو کیے جاتے ہیں
ہم اقوام متحدہ کے ہونٹوں پر بنے
تل کی تعریف کرتے ہیں
مملکت شعور کی حدود میں
انسانیت کے خلاف بڑھتے جرائم کا
ہم روز مشاہدہ کرتے ہیں
ہماری گزرگاہ کے نزدیک
مکانات اور درخت
نہایت اکیلے اور افسردہ دکھائی دے رہے تھے
ایک ہیبت ناک اداسی
ہماری جانب پھن کاڑھے ہوئے تھی
میں نے کہا
کیا تم نے محسوس کیا
کہ نا دانستہ طور پر
ہم سیاست کی حدود میں چلے آئے ہیں
جو ہمارے وجود کے لئے ایک لازمی امر ہے
کسی طرح لمحہ ء موجود میں
ہمارے سوالات ان لوگوں سے ہم آہنگ ہیں
جو ایمو Emu کا گانا سننے کے لئے ساری رات رکے رہتے ہیں
جو راتوں اور دنوں کو مزید یادگار بنانے کے لیے
سخت محنت کرتا ہے
جہاں آبنوسی حسن کی ملکائیں
اپنے بچوں کو شیطانی سمندر کی کہانیاں سناتی ہیں
جہاں ہیروں سے سجے ہرن
عنبر کی زمین پر کھیلتے ہیں
دیکھو ہمارے خیالات ان لوگوں سے کتنے ملتے جلتے ہیں
میں یہ کہتے ہوئے خوشی کے مارے تقریبا چیخ پڑا
کہ اب وقت آگیا ہے
کہ ہم نظریہ کو دریافت کرلیں
لیکن میرا دوست خوفزدہ لگ رہا تھا
اس نے کہا
جانتے ہو،
بے انتہا غم یا خوشی کی کیفیت میں
مجھ پر سکتہ طاری ہو جاتا ہے
اور اس لمحے کوئی بھی شخص
کسی بھی قسم کا فیصلہ لینے کے لئے
انتظار نہیں کرتا
تب مجھے احساس ہوا
کہ ہمیں یہاں سے واپس لوٹ جانا ہے.......
0 Comments