منفرد تیور کا شاعر - احمد کمال حشمی
✍️ نسیم اشک
اسم عام سے اسم خاص تک کا سفر بہت پر پیچ اور پر خار ہوتا ہے اور یہ سفر بھی سب کے مقدر میں نہیں ہوتا جن کے مقدر میں یہ سفر ہوتا ہے وہ بڑے جیالے ہوتے ہیں. جسم کو آگ کی بھٹی میں تپا کر خود کو کندن بنانے کے لیے چٹانی حوصلہ اور ایک ایسا دل رکھنا ہوتا ہے جس میں اپنی حمایت میں اور اپنی مخالفت میں ، چنچلاتی دھوپ میں اور سرد رات میں ،خوشی کی پھوار میں اور غموں کی یلغار میں معتدل رہنے کا مادہ ہو تب جو ہوگا اس کی گواہ دنیا ہوگی ۔تمام صلاحیتیں متوارث ہوں ضروری نہیں کچھ خوبیاں اپنی لگن اور محنت اور یک سوئی سے کی جانے والی کاوش کی وجہ سے بھی حاصل ہوتی ہیں اور اگر وراثت میں اسکے آثار موجود ہو تو سونے پر سہاگہ ہوجاتا ہے۔ ایسے ہی ایک سونے پر سہاگہ احمد کمال حشمی ہیں جو استاد شاعر اور مینار علم و ادب مرحوم حشم الرمضان صاحب کے فرزندِ اکبر ہیں اور جن کے مقدر میں متورثی ذہانت اور محنت کا ثمر دونوں چیزیں آئی ہیں۔
بلا شک و شبہ اردو ادب کا بڑا حلقہ اس بات کا معترف ہے کہ عصر حاضر کا نباض اور نمائندہ شاعر احمد کمال حشمی ہیں۔ غزل کا نیا پن اور منفرد انداز جو ان کی غزلوں میں ملتا ہے وہ بہت ہی کم شاعروں کے یہاں موجود ہے کہ جس بلندی پر احمد کمال حشمی کے غزلیں ہوا کرتی ہیں اس بلندی پر ٹھہرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے مگر موصوف نہ صرف ٹھہرے ہوئے ہیں بلکہ اپنی دور بین نگاہوں سے مزید بلندیوں کا جائزہ لے رہے ہیں اور وہاں پہنچنے کے لئے پر بھی تول رہے ہیں۔
غزل اردو شاعری کی روح ہے اور دوسرے اصناف سے زیادہ مقبول بھی ہے اس میں کوئی شک نہیں اس لۓ غزل کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے اس کا جادو اس وقت زہرہلاہل بن جاتا ہے جب شاعر ایک شکاری کی طرح ہرن کے جسم پر تیر مارتا ہے ایسا تیر جو دل میں اتر جاتا ہے اور اسے ہرن نکالنے بھی نہیں دیتا بلکہ اس درد کی لذت سے محظوظ ہوتا رہتا ہے اس کیفیت کے تیر نما اشعار موصوف کے ترکش میں ایک دو نہیں بہت ہیں اس کیفیت کو یا تو شکاری جانے کہ اس نے تیر میں کیا ملایا تھا یا شکار جانے کہ اس میں کیا ملا ہوا تھا۔ ہم تو اتنا جانتے ہیں کہ شاعری دل کی آواز ہے اور بقول مرحوم حشم الرمضان صاحب ؎
دیر ہوتی ہے تو ہوتی ہے مگر ہوتا ہے
دل سے نکلی ہوئی باتوں کا اثر ہوتا ہے
مرضئ رب سے محترم احمد کمال حشمی کو والد مرحوم سے حشمت ملی اور والدہ محترمہ نے صالح بنا دیا ۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ ''سفر مقدر ہے '' ان کے شعری تجلیات کا آئینہ ہے مجموعے کی پہلی غزل کا مطلع ہی چونکاتا ہے؎
اہل خرد کو پاگل کر دے یا اللہ
اور دیوانوں کو پتھر دے یا اللہ
عام طور سے دیوانے پتھر کھانے کے حقدار سمجھے جاتے ہیں مگر شاعر نے پانسہ پلٹتے ہوئے خدا سے ان دیوانوں کے ہاتھ میں پتھر دینے کی التجا کی ہے۔ کیا خوبصورت شعر سے مجموعے کی شروعات ہوتی ہے یہ خیال کی ندرت ہے۔ احمد کمال حشمی پامال زمینوں اور پامال خیال سے اپنا دامن بچاتے ہوئے نیا خیال نئ زمین تلاش کرتے ہیں اس لئے ان کے اشعار میں انوکھا پن اور نیا پن ملنا فطری ہے۔ عام طور سے غزل کے اشعار میں کم از کم ایک شعر ڈھونڈا جاتا ہےجسے حاصل غزل کہا جاسکے مگر یہ بات احمد کمال حشمی کی غزلوں میں آ کر حیران ہو جاتی ہے کہ ان کی غزل کا کونسا شعر بیت الغزل کہلاۓ سارے اشعار اپنی مثال آپ ہوتے ہیں۔ وہ اپنی شاعری کے بارے میں خود رقمطراز ہیں۔
"شاعری میرے نزدیک ایک مقدس عمل کا نام ہے یہ پوری سنجیدگی، مشق ،مطالہ اور نیک نیتی کا تقاضا کرتی ہے میں نے اپنے طور پر ان تقاضوں کو پورا کرنے کی کوشش کی ہے کامیاب کہاں تک ہوا ہوں اس کا فیصلہ آپ کریں گے"
غزل رمز و ایمائیت کا فن ہے عام طور پر شاعر کی غزل میں سونے کے اشعار اس وقت آتے ہیں جب اس کے بالوں میں چاندی اتر آتی ہے مگر کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ عہد شباب میں سونے کے اشعار جڑ کر ہیرے کی جستجو کے لیے شاعر سفر پر نکل پڑتا ہے۔ شاعری محض لفظوں کا کاروبار نہیں اور اس کی شرط صرف عروضی ہونا نہیں۔ بعض غزلیں زمین ملنے کی بدولت ہو جایا کرتی ہیں یا یوں کہیے کہ اچھی زمین غزل کہلوا لیتی ہے مگر پھر شعریت مجروح ہوتی ہے، شعر میں سپاٹ پن ہوتا ہے اور دل کو چھوئے بغیر آنکھوں سے گزر کر وقت کے سرد خانے میں چلا جاتا ہے مگر موصوف کے اشعار ذہن کو بیدار کر کے دل میں ہلچل مچاتے ہیں، نئ تراکیب، نئےاستعارے کی تازگی سے قاری محظوظ ہوتا ہے۔چند اشعار آپکی بصیرتوں کے حوالے کرتا ہوں۔
ہم نے شب سیاہ میں روشن کۓچراغ
ظلمت سے سخت جنگ کی، نوری غزل کہی
میں آنسوؤں کو تبرک سمجھ کے پیتا ہوں
چھپا ہوا کہیں زمزم رہا ہے آنکھوں میں
تمام پیڑ پسینے میں تر تھے حدت سے
کچھ اور تیز ہوئی جھیل میں نہا کر آ گ
شعر گوئی ایک الہامی کیفیت ہے ایک وجدان ہے،سوچ کر شاعری نہ ہوئی ہے اور نہ ہونی ممکن ہے شاعر بھی اس نظریہ سے متفق ہوتے ہوۓ کہتا ہے کہ
الہامی کیفیت جو ہوئی تب ہوئے شعر
میں نے کہاں کبھی بھی شعوری غزل کہی
لیکن شاعر کے ہاں الہامی کیفیت کے ہمراہ شعری شعور پورے آب وتاب کے ساتھ جلوہ فگن ہے۔توانائ ،تازگی اور نیا پن ان کو بھیڑ میں منفرد بناتے ہیں۔ یہ بات بلاشبہ کہی جاسکتی ہے کہ جس طرح کی شاعری احمد کمال حشمی کے ہاں ہے اس نوعیت اور گہرے رموز سے پر دلکش انداز بیانی کے اشعار خال خال ہی ملتے ہیں۔ شاعر اپنے حالات اور سماج کے بدلتے مزاج کا ترجمان ہوتا ہے اس کی شاعری اس دور کے لیے ہوتی ہے جس دور میں وہ پیدا ہوتا ہے مگر وہ شاعری جو آپ بیتی کو جگ بیتی بنا دیتی ہے وہ شاعری کبھی کسی عمر میں کسی عہد میں آکر ضعیفی کا شکار نہیں ہوتی شاعری کو ایسی everlasting beauty وہ فنکار عطا کرتا ہے جو دوربین ہوتا ہے جو روزمرہ پر گہری نظر رکھتا ہے اور آنے والے دنوں کی پیش گوئی بھی کرتا ہے اس لیے شاعری بہت مقدس عمل ہے۔یہ عمل حکمت و دانائی سے پر ہوتا ہے موصوف کے اندر ایک ایسا فنکار جیتا ہے جو بہت بیدار ہےاور جو ماضی کی گوندھی مٹی سے حال کی ایسی مورت بناتا ہے جو شاہکار بن جاتا ہے اور جو آنے والے عہد میں سنگ میل کا کام انجام دیتا ہے۔ فنکار چھوٹا بڑا نہیں ہوتا فنکار فنکار ہوتا ہے مگر اتنا ضرور ہے کہ اسی فنکار کو دنیا تسلیم کرتی ہے جو فنکار وقت کی کسوٹی پر کھرا اترتا ہے اور ایسا فنکار روز کہاں پیدا ہوتا ہے؟
حسن حسن کو پسند کرتا ہے اور حسن پسندی کی خاطرحسین نگاہوں کی ضرورت ہوتا ہے تب ہی حسن نظر آئے گا کیونکہ آنکھیں وہی دیکھتی ہیں جو ہم دیکھنا چاہتے ہیں موصوف نے بھی اس خیال کو یوں پیش کیا ہے
دکھائی دیتی ہے ہر شے مجھے حسین کمال
کسی کے حسن کا البم رہا ہے آنکھوں میں
خیال کی حسن کاری شاعری کی جان ہوتی ہے جس میں شاعر کا سلیقۂ اظہار بہت معنی رکھتا ہے الفاظ کا برمحل استعمال،فکر کی پرواز شاعر کے فکری اُڑان کا پتہ دیتا ہے موصوف کے یہاں پرواز تخیل کے اعلیٰ نمونے ملتے ہیں اور کہیں کہیں رک کر قاری اپنے ذہنی پیراشوٹ کی مدد لیتا ہے اور فکر کی پرواز کو تاڑتے ہوۓ عش عش کرتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ قاری راہ چلتے وقت ان سب باتوں کو سوچتا بھی ہے دیکھتا بھی ہے جانتا اور پہچانتا ہے مگر موصوف انہی باتوں کو جب شعری پیکر عطا کرتے ہیں تو وہی قاری چونک پڑتا ہے اسے یہ ملال ہوتا ہے کہ اس نے ان چیزوں کو ایسے کیوں نہیں سوچا یا دیکھا جیسا کہ موصوف نے دیکھا۔ یہی کمال ہے احمد کمال حشمی کا ۔ وہ اپنا انداز الگ رکھتے ہیں وہ ایک معمولی خیال کو جادوئی پنکھ لگا دیتے ہیں جو شاعری کی فضا میں جب پرواز کرتا ہے تو آمد معلوم ہوتی ہے ۔ شعروں کی دل کشی سے لطف اندوز ہوں
کسی کسی سے ستم گر بھی خوف کھاتا ہے
قصیدہ پڑھتی ہے پانی کا سر جھکا کر آگ
ابتدا بھی،انتہا بھی خاک ہے
زیست کیا ہے،اک سفر مٹی کا
مقید کرلوں گا سانسوں میں تم کو
کبھی اس کا تن چھو کے آؤ ہواؤ
ابتدا بھی،انتہا بھی خاک ہے
زیست کیا ہے،اک سفر مٹی کا
مقید کرلوں گا سانسوں میں تم کو
کبھی اس کا تن چھو کے آؤ ہواؤ
احمد کمال حشمی کی غزلوں میں شعری لفظیات غزلوں کا حسن دوبالا کر دیتی ہیں اور پڑھنے کی لذت بڑھا دیتی ہیں۔ ان کی غزلوں میں بے شمار ایسے اشعار ملتے ہیں جن کو پڑھنے کے بعد قاری کے اندر خود اعتمادی اور ایک انجانا شعور بیدار ہونے لگتا ہے ان کی غزلوں میں امید کی شمع جلتی ہے نا امیدی کے ابر کا چھوٹا ٹکڑا بھی نظر نہیں آتا حوصلے ،ہمت ،روشنی ،خور اعتمادی، مستحکم ارادہ، ڈوبتے کو تیرنے کا ہنر سکھانے والے اشعار ذہن و دل پر اس قدر گرفت رکھتے ہیں جیسے کوئی جادوگر ناظرین کے دل و دماغ پر رکھتا ہے ۔ کمال خوبی یہ ہے کہ اشعار میں جو پیغام ہوتے ہیں بالکل واضح طور پر سمجھ میں آتے ہیں شعر گوئی میں طرز تخاطب کا انداز ان کے شعری صلاحیت کا آئینہ دار ہے ۔ابہام گوئی سے اجتناب برتتے ہوئے مفہوم کو سلیقگی سے پیش کرنے کا ہنر سے نہ صرف واقف ہیں بلکہ کامل دسترس بھی رکھتے ہیں۔ شہد میں بھگو کر تیکھی غزل کہنے والا شاعر کے یہاں زندگی کا ایک مثبت نظریہ ملتا ہے۔ وہ کاغذ اور قلم سے زندگی کی خوبصورت تصویر بناتے ہیں اور ان تصویروں میں جو رنگ بھرتے ہیں وہ سب کے سب خوش نما ہوتے ہیں۔ تلخ تجربات کا بیان شیریں کیسے ہو سکتا ہے؟ لہزا کچھ اشعار نشترکا کام بھی کرتے ہیں۔
یہاں چہرے ہیں یاروں کے مگر دل دشمنوں کے ہیں
یہاں امرت کے پیالے سے بھی اکثر سم نکلتا ہے
یہاں چہرے ہیں یاروں کے مگر دل دشمنوں کے ہیں
یہاں امرت کے پیالے سے بھی اکثر سم نکلتا ہے
رقص میں شعلوں کےشامل ہیں در پر دہ وہ بھی
دیر و حرم میں جو دن رات صحیفے پڑھتے ہیں
دعویٰ تھا سچ بولنے کا بزم میں ہر شخص کو
اور اک گوشے میں بیٹھا ہنس رہا تھا آئنہ
زندگی کی تلخ اور ٹھوس حقیقتوں کو بیان کرتے ہوئے ان سے نبرد آزمائی کی بات کرتے ہیں کہیں بھی حالات سے ہار ماننے کی بات نہیں ہوتی ، بےبسی کے صحرا میں حوصلہ ہمت کا علم تنہا لیے مسکراتا ہے۔ ہار اس وقت ہوتی ہے جب جیت کی امید ختم ہوجاتی ہے یعنی انسان ذہنی طور پر پہلے ہار جاتا ہے شاعر انکے دلوں میں نیا جوش،نیا ولولہ پیدا کرنے کی سعی کرتا ہے اور یوں گویا ہوتا ہے
دعویٰ تھا سچ بولنے کا بزم میں ہر شخص کو
اور اک گوشے میں بیٹھا ہنس رہا تھا آئنہ
زندگی کی تلخ اور ٹھوس حقیقتوں کو بیان کرتے ہوئے ان سے نبرد آزمائی کی بات کرتے ہیں کہیں بھی حالات سے ہار ماننے کی بات نہیں ہوتی ، بےبسی کے صحرا میں حوصلہ ہمت کا علم تنہا لیے مسکراتا ہے۔ ہار اس وقت ہوتی ہے جب جیت کی امید ختم ہوجاتی ہے یعنی انسان ذہنی طور پر پہلے ہار جاتا ہے شاعر انکے دلوں میں نیا جوش،نیا ولولہ پیدا کرنے کی سعی کرتا ہے اور یوں گویا ہوتا ہے
اگر ہمت پرندوں کی نہ ٹوٹے
تو پھر اک روز پنجرہ ٹوٹتا ہے
تلاطم ہے نہ موجیں ہیں بھلا تالاب میں کیا ہے
لڑیں گے ہم سمندر سے عدو اپنا سمندر ہے
تلاطم ہے نہ موجیں ہیں بھلا تالاب میں کیا ہے
لڑیں گے ہم سمندر سے عدو اپنا سمندر ہے
موصوف غزلوں میں شعریت کو کبھی مجروح ہونے نہیں دیتے حالانکہ کبھی موضوعات بہت خشک ہوا کرتے ہیں مگر اتنی سلیقگی سے ان موضوعات کو شعری پیکر عطا کرتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ غزلوں کی نغمگی، برجستگی، سلاست و روانی اشعار کو تابندگی بخشتی ہیں خود کو کو ٹوٹ کر بکھرنے سے بچاتے ہوئے یہ شعر دیکھئے۔
یہی اعزاز کیا کم ہے میں اس کی پہلی چاہت ہوں
یہی اعزاز کیا کم ہے میں اس کی پہلی چاہت ہوں
یہ کیا کم ہے وہ میرا، غیر کا ہونے سے پہلے تھا
غزل کے موضوعات میں عشق نہ ہو تو سب کچھ ہوتے ہوئے بھی ایک کمی کا احساس ستاتا ہے۔ عشقیہ مضمون پر سینکڑوں اشعار ملتے ہیں مگر موصوف کے ہاں اس مضمون کا اظہار اس خوبصورتی سے ملتا ہےکہ جو دل درد عشق سے اشنا نہیں ہے وہ بھی اپنا دل ہار دے۔ کیا مہذبانہ انداز اظہار عاشقی ہے ملاحظہ فرمائیں۔
اپنی نظروں پہ تو رکھ قابو،میں رکھوں دل پر
مجھکو مت دیکھ تو ایسے کہ دوانہ ہو جاؤں
دل کے جذبات پہ موسم کا اثر ہوتا نہین
یہ شجر وہ ہے جو پت جھڑ میں بھی پھل سکتا ہے
دل کے جذبات پہ موسم کا اثر ہوتا نہین
یہ شجر وہ ہے جو پت جھڑ میں بھی پھل سکتا ہے
موصوف کی غزلوں میں تکرار لفظی سے غضب کی تاثیر پیدا ہوتی ہے؎
جب اس نے دل دیا تو کہی میں نے اک غزل
توڑا جب اس نے دل تو دوبارہ غزل کہی
تری چارہ گری کی،چارہ گر! حاجت نہیں ہم کو
ہمارے زخم سے ہی زخم کا مرہم نکلتا ہے
احمد کمال حشمی کی غزلوں کے مقطعے بڑے چست اور پر شوکت ہوا کرتے ہیں۔مقطعے جاندار بھی ہوتے ہیں اور شاندار بھی۔مقطعے کا تیور انکی غزلوں کا رعب بڑھا دیتا ہے اور غزل کا گراؤنڈ فلور اوپر کی شاندار عمارت کا نقشہ پیش کرتا ہے۔چند مقطعے کے اشعار آپکے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں دیکھیں
بزم شعری میں خاک لطف آۓ
آج احمد کمال ہے ہی نہیں
یہ تیری شاعری لگتی ہے ساحری کمال
کمال! تُوتو سخنور بڑا عجیب سا ہے
یہ الگ بات کہ ہم پھولوں پہ چلتے ہیں کمال
وقت پر جاۓ تو پتھر بھی ہیں توڑا کرتے
یقینا احمد کمال حشمی شاعری کی دنیا کا وہ روشن ستارہ ہیں جس کی تابندگی تخمینے میں آنی بہت مشکل ہے ۔ وقت کے ساتھ وہ اپنی شاعری کو ایک نہ ایک دن ایسے مقام پر پہنچا دیں گے جو آنے والی نسل کے لۓ سنگ میل ہوگا ۔ نۓ شعراء انکی جیسی شاعری کرنے کی حتی المقدور کوشش کریں گے۔وہ شاعر جس کا سفر مقدر ہے وہ اور اسکا قلمی سفر ہمیشہ جاری رہے گا کیونکہ
میں کنارے پہ بہت دیر نہیں رہ سکتا
ایک آواز بلاتی ہے سمندر کی طرف
مالک کل سے دعا گو ہوں کہ انکا قلم یونہی سنگلاخ راہوں میں پھول کھلاتا رہے اور شعری گلشن کو معطر کرتا رہے۔ آمین
تری چارہ گری کی،چارہ گر! حاجت نہیں ہم کو
ہمارے زخم سے ہی زخم کا مرہم نکلتا ہے
احمد کمال حشمی کی غزلوں کے مقطعے بڑے چست اور پر شوکت ہوا کرتے ہیں۔مقطعے جاندار بھی ہوتے ہیں اور شاندار بھی۔مقطعے کا تیور انکی غزلوں کا رعب بڑھا دیتا ہے اور غزل کا گراؤنڈ فلور اوپر کی شاندار عمارت کا نقشہ پیش کرتا ہے۔چند مقطعے کے اشعار آپکے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں دیکھیں
بزم شعری میں خاک لطف آۓ
آج احمد کمال ہے ہی نہیں
یہ تیری شاعری لگتی ہے ساحری کمال
کمال! تُوتو سخنور بڑا عجیب سا ہے
یہ الگ بات کہ ہم پھولوں پہ چلتے ہیں کمال
وقت پر جاۓ تو پتھر بھی ہیں توڑا کرتے
یقینا احمد کمال حشمی شاعری کی دنیا کا وہ روشن ستارہ ہیں جس کی تابندگی تخمینے میں آنی بہت مشکل ہے ۔ وقت کے ساتھ وہ اپنی شاعری کو ایک نہ ایک دن ایسے مقام پر پہنچا دیں گے جو آنے والی نسل کے لۓ سنگ میل ہوگا ۔ نۓ شعراء انکی جیسی شاعری کرنے کی حتی المقدور کوشش کریں گے۔وہ شاعر جس کا سفر مقدر ہے وہ اور اسکا قلمی سفر ہمیشہ جاری رہے گا کیونکہ
میں کنارے پہ بہت دیر نہیں رہ سکتا
ایک آواز بلاتی ہے سمندر کی طرف
مالک کل سے دعا گو ہوں کہ انکا قلم یونہی سنگلاخ راہوں میں پھول کھلاتا رہے اور شعری گلشن کو معطر کرتا رہے۔ آمین
0 Comments