پازیٹیو سے نگیٹیو
افسانہ نِگار ✒️ ریحان کوثر
ایونٹ نمبر 6 باپ، والد
افسانہ نگار
واٹس ایپ گروپ کی پیشکش
افسانچہ نمبر 2
100 لفظوں کی کہانی
کویڈ 19 وارڈ میں دو دوست مشتاق اور منیش ایک ہی دن ایڈمٹ ہوئے۔
کسی کو ملنے کی اجازت نہیں تھی۔ لیکن مشتاق کا بیٹا چھپتے چھپاتے روز آجاتا۔ کبھی کبھی وارڈ بوائے کو رشوت بھی دینی پڑتی۔
بیٹے کے آنے پر مشتاق کا چہرہ کھل اٹھتا۔
وہیں منیش دونوں کو تکتا اور اداس ہو جاتا۔
دونوں مریضوں کا دوبارہ ٹیسٹ ہوا۔
رپورٹ آنے سے پہلے ہی منیش ہارٹ اٹیک کے سبب چل بسا۔
رپورٹ نگیٹیو آنے پر مشتاق کو گھر جانے کی اجازت مل گئی۔
مشتاق کے بیٹے کے پوچھنے پر معلوم ہوا منیش کی رپورٹ بھی نگیٹیو تھی۔
تبصرے و تجزیے
کورونا سے زیادہ مہلک مرض اپنوں کی بے اعتنائی نے منیش کی جان لی۔ مرکزی خیال پر پڑے مخملیں پردے نے افسانچے کو خوبصورت بنا دیا
ایک خوبصورت افسانچے کے لئے ریحان کوثر صاحب کو بہت بہت مبارک باد۔
محمد علی صدیقی، مغربی بنگال
والدین سے جگ بیزاری ظاہر کرتی تحریر کے لئے ریحان کوثر صاحب کو مبارک باد۔ بات کویڈ کے دوران ہونے والے واقعے کی عکاسی کرتی ہے۔ جب ہر طرف افرا تفری کا عالم تھا، ونہی کہیں ایسے بیٹے کا وجود ظاہر ہوا جو اپنے پتا سے چھٹکارہ چاہتا تھا۔ پتا کویڈ نیگیٹیو ہونے کے باوجود،انہیں پوزيٹو دکھا کویڈ سینٹر میں بھرتی کر، بیٹے نے اپنی جان چھڑا لی۔ باپ سے چھٹکارہ چاہنا مقصود تھا،جو حاصل کر لیا۔ بے غیرت بیٹے کی کرتوت سے واقف پتا نے بھی غیرت مند ہونے کا ثبوت دیا اور پلٹ کر گھر جانے کے بجائے سیدھا شمشان جانے کو ترجیح دی۔ بے مروتی کے دور کو ظاہر کرتے افسانچے کے لئے ریحان کوثر صاحب کو مبارک باد۔
عارفہ خالد شیخ، ممبئی، مہاراشٹر
سسپینس اور سبق سے بھرپور کہانی ہے۔کوڈ۱۹ کی آڑ میں کورونا وائرس سے بھی جان لیوا اور زہریلے لوگوں نے اپنی چالیں چلی۔ پازیٹیو اور نیگیٹیو کا کھیل بھی خوب رچا گیا۔ بہترین افسانچہ رقم کرنے پر محترم ریحان کوثر کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد۔
تبسم اشفاق شیخ، پالگھر، مہاراشٹر
ریحان کوثر صاحب کی سولفظوں کی کہانی پڑھا۔ انور مرزا صاحب نے اوپننگ کی اور ریحان کوثر صاحب نےشتک لگا دیا۔ ایونٹ مزیدار ہوگیا ہے۔ ویسے بھی اس بار معیاری افسانچے آنے کی امید بڑھ گئی ہے۔ کیونکہ مسلسل پانچ ایونٹ میں قلمکاروں کی اچھی خاصی اسکولینگ ہوگئی ہے۔ مانا کے باپ پر لکھنا مشکل ضرور ہے لیکن امتحان تو امتحان ہے۔ ان شاءاللہ بھرپور محظوظ ہونے کاموقع ملے گا۔ کوثر صاحب کو صمیم قلب سے مبارک باد۔
رونق جمال، درگ چھتیس گڑھ
کیا خوب؟ دور حاضر کے بین الاقوامی سطح پر کھیلی جانی والی گھنونی سیاست کا پردہ فاش کرتا افسانچہ ہے۔ جہاں بیماری سے کم اور دیگر وجوہات سے ہونے والی اموات کی گنتی کہیں زیادہ ہے۔ منیش بیماری کا نہیں بلکہ اپنوں کی بے اعتنائی اور دانستہ پھیلاۓ جانے والےخوف کا شکار ہوا۔ رپورٹ نیگیٹو آنے پر بھی وہ بچ نہ سکا۔ بہترین افسانچہ کے لیےریحان کوثر صاحب کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
شارق اعجاز عباسی، نئی دہلی
اس وبائی دور نے نئے نئے قصوں کو جنم دیا ہے۔ کئی رشتوں کے امتحان لیے ہیں اس وبا نے۔ کہیں دیکھا گیا کہ لوگ اپنوں کو دوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑ کے دوری اختیار کیے ہوئے ہیں تو کہیں ایک بیٹا یہ بھی ہے جو بنا وبا کے خوف کے بیمار باپ کی قربت کے لیے رشوت دینے سے بھی نہیں چوکتا۔
اولاد اور اپنوں کی بے اعتنائی کا نتیجہ ایسا بھی ہوا ہے کہ علاج ہو جانے کے باوجود ایک شخص صرف مایوسی کا شکار ہو کے مر جائے جب کہ دوسرا شخص اپنوں کی قربت کے نتیجے میں بیماریوں سے لڑنے کی ہمت پا لے اور بیماری پر فتح حاصل کرے۔
اس وبائی دور کی کہانیاں، افسانے، دوسری تحریریں اس دور کی دستاویز ہیں۔ ایسی تحریریں دل سے محسوس کر کے لکھی جا رہی ہیں۔ انہیں اس دور سے نکل کے نہیں لکھی جا سکتیں کیوں کہ وہ احساسات پھر ان میں شامل نہیں ہوں گے۔ اِس لئے افسانہ نگار کو اس حقیقت بھری تحریر کے لیۓ بہت بہت مبارک باد۔
ابوذر، ممبئی مہاراشٹر
اس میں ذرہ برابر بھی شک کی گنجائش نہیں کہ کورونا جتنا پھیلا، ڈر اس سے کہیں زیادہ پریشان کن ثابت ہوا۔منیش کی موت ہارٹ اٹیک سے ضرور ہوئی لیکن اس کی دو وجوہات اور ہیں۔ ایک تو اپنوں کا ساتھ نہ ملا دوسرے مشتاق کے بیٹے کا باپ سے ملنے آنا۔ پھر آرزوؤں کی کروٹ نے پہلے تو ادھ مرا کردیا پھر سوچ کا تیر نشانے پر لگا۔ جب سے کورونا کا پھیلاؤ ہوا، یہ واقعہ ہے کہ پریشانیوں نے اپنی گرفت مضبوط کرلی۔ لاکھ جتن ہوئے وہ کامیاب رہا۔ عمدہ اظہار پر ریحان کوثر کو ڈھیروں مبارک باد۔
قیوم اثر، جل گاؤں، مہاراشٹر
اولاد کی بے اعتنائی کا کاری زخم جس نے دل کی دھڑکنوں کو سدا کے لئے خاموش کردیا ۔ نیگیٹیو آنے کی آس بجھ گئی تھی کیونکہ جینے کی تمنا ہی نہیں رہی ۔ ایک زخم خوردہ باپ کا دکھ دل میں اتر جاتا ہے کہ اولاداس حد تک بھی خودغرض ہوسکتی ہے ۔ کربناک افسانچہ ۔ مبارکباد پیش ہے۔
رخسانہ نازنین، بیدر، کرناٹک
اس وبا نے رشتوں کی پہچان کرادی ہے کہ کون اپنا ہے کون پرایا بیے حد متاثر کن افسانچہ ہے۔ آپ کو تہہ دل سے مبارکباد۔
حسن آرا
بہت خوب۔ تنہائی کورونا سے زیادہ مہلک ثابت ہوئی۔ افسانچہ پر مبارکباد۔
اسید اشہر، جل گاؤں مہاراشٹر
کویڈ حالیہ دنوں کا مرغوب موضوع ہے۔ قلمکار کا ذہن کو یڈ کے پس منظر میں ایسے دکھنے والے تجربے اور مشاہدے سے حاصل علم کو صفحہ قرطاس پر بکھیر رہا ہے۔
دیوار پر آویزاں گردش ایام کے اشارے اور اس کے ساتھ نتھی ہرماہ کا ورق ورق خوف، ڈر، بے مروتی ،بے اعتنائی ،انسان سے انسان کی دوری ،رشتوں کی سردمہری ،معاشرے کی بے حسی ،سماج سے دوری ،گہن زدہ انسانی رشتوں کے ٹوٹنے اور بکھرنے کی صدااور اس کا کرب کی دستاویز رقم کر کلنڈر کی پیٹھ کاحصہ بن رہا ہے۔
کلینڈر کے اوراق میں دفن انسانیت کی چیخ سے درد کی دستا ویز مرصع ہے۔
کہانیاں سڑک پر، گلی کوچے میں ،اسپتال میں، گھر میں، پڑوس میں، بکھری پڑی ہیں ۔ جو مشاہدے کے دائرے میں آ جانے والی تھیں۔
کچھ افسانے ایسے بھی تھے جو خلوص کے رشتوں سے بندھے دل سے جڑے تھے ۔جسے قلمکار کو سوئی کی نوک سے نکال کر قلم کے حوالے کرنا تھا تاکہ قلم اپنوں کے ہاتھوں ستائے لوگوں کے درد کو اس کی اصل اساس کے ساتھ بیان کر دے۔
ریحان کوثر سو لفظوں پر مشتمل افسانچے میں باپ اور بیٹے کے رشتے میں چبھی ہوئی بے مروتی سے لیس محبت کی پھانس کو قلم کی نوک سے نکالا ہے ۔رشتوں کے بوجھ سے دبے وجدان میں پیوست خیر خواہی کی سوئی کی نوک پر اس زہر کو مصنف نے تاڑ لیا ہے۔اسے اپنے افسانچے کا موضوع بنا کر بیٹے کے کردار پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔
کویڈ کا خطرہ باپ کی محبت کی شکل میں جب ان کے سروں پر موت کا ڈر بن کر منڈلانے لگا تو دو تہذیبی کلچر کے بیٹوں نے اپنےاپنے باپ کو اسپتال میں ڈال دیا تاکہ پل بھر میں چٹ کرنے والی وبا انہیں نہ اچک لے۔ مشتاق اور منیس دونوں دوست بھی ہیں ۔ دونوں اس کورنٹائن والی زندگی سے پہلی بار متعارف ہوتے ہیں۔
مشتاق کا بیٹاچھپ چھپا کر اپنے باپ سے ملنے آتا ہے اس سے اس کے باپ کی ڈھارس بندھی رہتی ہے۔منیس تنہا اپنوں کے انتظار میں نمک کی طرح گھلتا رہتا ہے۔اپنوں کی بے رخی، بے اعتنائی، بے مروتی اسے شدید صدمے سے دوچار کرتی ہے۔ کویڈ جیسی وبا کو تو شہ مات دے دیتا ہے۔ لیکن اپنوں کی بے مروتی سے زندگی ہار جاتا ہے۔مصنف نے یہاں دو تہذیبی حوالے سے بیٹے کے کردار کو بھی واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ اچھے افسانچے پر میری طرف سے مبارکباد۔
نثار انجم
ریحان کوثر صاحب سو سو بار مبارکباد۔ سو لفظوں میں پوری کہانی کا احاطہ کرنا کوئی آپ سے سیکھے۔ نیک خواھشات کے ساتھ مبارکباد۔
پینٹر نفیس، مالیگاوں مہاراشٹر
واہ کیا خوبصورت افسانچہ ہے۔ سسپنس سے بھرپور، غور و فکر کی دعوت دیتا ہوا مبارک ریحان کوثر صاحب۔
منظور وقار، گلبرگہ کرناٹک
آج کے دور کی جیتی جاگتی تصویر۔ مشتاق خوش قسمت تھا۔جس کے بیٹے کے دل میں اس کے لیے محبت بھی تھی اور ہمدردی بھی۔ باپ کی محبت ہی اس کو یہاں کھینچ لاتی تھی جیسا کہ موصوف نے کہا ہے ۔۔'کبھی کبھی وارڈ بوائے کو ر شبت بھی دینی پڑتی۔'
کاش منیش کے بیٹے کے دل میں تھوڑی سی بھی ہمدردی ہوتی۔تو شاید اس کی جان بچ جاتی۔ کیونکہ اس کی موت کی وجہ وائرس نہیں۔ ہارٹ اٹیک کے سبب چل بسا۔ ہوسکتا ہے مشتاق کے بیٹے کو دیکھ کر اس کے دل کو گہرا صدمہ لگا ہو۔
ماں باپ اس جہاں میں سب سے بڑی دولت
سب سے بڑی دولت سب سے بڑی نعمت
ڈاکٹر یاسمین اختر
اپنوں کا اگر ساتھ مل جائے تو آدمی بڑی سے بڑی جنگ جیت جاتا ہے اور اپنوں کی بے اعتنائی و لاپرواہی ہو تو انسان جیتی جنگ ہار جاتا ہے ۔ منیش کے ساتھ ساتھ بھی وہی ہوا۔ اس کے اپنوں نے اس کا ساتھ نہ دیا۔ جبکہ مشتاق کے بیٹے نے جو خلوص اور اپنا پن دکھایا۔ اس کے والد کورونا جیسے مہلک بیماری کو مات دے کر کورونا سینٹر سے بخیر و عافیت واپس آگئے۔ منیش بے چارہ نگیٹیو رہتے ہوئے بھی اللہ کو پیارا ہوگیا۔ بڑے دکھ کی بات ہے ،اس کہانی کا یہی پیغام ہے کہ اپنوں کے خلوص اور ساتھ کی دوا ہر دوا سے افضل اور کارگر ہے۔ جس کو یہ دوا نہ ملی- وہ موت سے پہلے ہی مرگیا۔ جیسے بے چارا منیش... اللہ سب کو اپنوں کا ساتھ دے۔ ریحان کوثر صاحب کو اس خوبصورت اور بہترین افسانچے کے لیے دلی مبارکباد اور ڈھیروں داد۔
سراج فاروقی، پنویل مہاراشٹر
ریحان کوثر کی کہانی پازیٹیو سے نگیٹیو بہت حساس ہے۔مشتاق اس لیے اچھا ہواکہ اسے بیٹے کی محبت اور خلوص نے نئی زندگی دی لیکن منیش کو مرض نے نہیں بے رخی نے مار ڈالا۔ زبردست کانسیپٹ پر منحصر افسانچہ دل کو چھو لیا۔مبارک۔
سیدہ نوشاد بیگم
ریحان کوثر صاحب نے بہترین انداز میں وقتِ حاضر کی سچائی اور والد حق کو بیان کیا ہے۔ مرعوب افسانچے پر مبروک۔
حسین قریشی، بلڈانہ مہاراشٹر
اظہار تشکر
انور مرزا صاحب کی پچاس لفظی کہانی ’آج‘ پر کچھ ہفتوں پہلے میں نے ایک تبصرے کے دوران لکھا تھا کہ
کہانی آج میں ایک تازگی یہ ہے کہ کہانی سورج کو مرکز میں رکھ کر لکھی گئی ہے اور اتنے وسیع موضوع کو صرف پچاس لفظوں میں قید کرنا کمال ہے۔ ہمارے ادب میں جس طرح ماں پر بے شمار تخلیقات موجود ہے اسی طرح چاند پر بھی بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ ادب میں جو حال والد کا ہے وہی حال سورج کا بھی نظر آتا ہے۔ سورج پر بہت کم لکھا گیا ہے اور اگر لکھا بھی گیا ہے تو اکثر سورج کے کردار کو گرے شیڈ میں پینٹ گیا گیا ہے۔ لیکن انور مرزا صاحب نے اس کہانی میں سورج کو سخت لیکن مشفق باپ کی طرح پیش کیا ہے۔ انور مرزا صاحب کو اس شاندار افسانچے کے لیے مبارکباد!
ہمارا ادب ماں کی عظمت سے بھرا پڑا ہے، لیکن والد پر تخلیقات ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔ اس مشکل لیکن اہم موضوع پر ایوینٹ رکھا گیا جس کے لیے میں انور مرزا صاحب کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اس ایوینٹ کے ذریعے ہم لوگ ادب کے سمندر میں والد کی عظمت اور قربانی کے عطر کی چند بوندیں ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو کامیابی عطا فرمائے آمین۔ اسی طرح میری سو لفظوں کی کہانی پازیٹیو سے نگیٹیو مندرجہ ذیل احباب نے اپنے تاثرات پیش کیے۔ میں تمام کی محبتوں اور عنایتوں کے لیے ممنون و مشکور ہوں۔
🍂محمد عرفان ثمین صاحب
🍂پرویز انیس صاحب
🍂محمد علی صدیقی صاحب
🍂عارفہ خالد شیخ صاحبہ
🍂تبسم اشفاق شیخ صاحبہ
🍂رونق جمال صاحب
🍂ڈاکٹر اشفاق احمد صاحب
🍂سید اسماعیل گوہر صاحب
🍂شارق اعجاز عباسی صاحب
🍂ابوذر صاحب
🍂قیوم اثر صاحب
🍂محمد نجیب پاشا صاحب
🍂خان حسنین عاقب صاحب
🍂رخسانہ نازنین صاحبہ
🍂حسن آرا صاحبہ
🍂اسید اشہر صاحب
🍂 نثار انجم صاحب
🍂 پینٹر نفیس صاحب
🍂 منظور وقار صاحب
🍂 ڈاکٹر یاسمین اختر صاحبہ
🍂 سراج فاروقی صاحب،
🍂 سیدہ نوشاد بیگم صاحبہ
🍂 حسین قریشی صاحب
افسانچے پر گراں قدر تاثرات اور خیالات کے لیے میں خصوصی طور پر نثار انجم صاحب، قیوم اثر صاحب، عارفہ خالد شیخ صاحبہ، تبسم اشفاق شیخ صاحبہ، رونق جمال صاحب، شارق اعجاز عباسی صاحب، ابوذر صاحب، سراج فاروقی صاحب، ڈاکٹر یاسمین اختر صاحبہ، رخسانہ نازنین صاحبہ اور محمد علی صدیقی صاحب کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
جزاک اللہ خیرا کثیرا
✍️ ریحان کوثر، کامٹی مہاراشٹر
0 Comments