اصغر حسین قریشی کی کتاب "بھیونڈی میں اردو نثر نگاری" کی تقریب اجرا
مورخہ 7 اگست بروز سنیچر شام 7.30 بجے بھیونڈی کے اردو بسیرا ہال میں بزمِ یارانِ ادب بھیونڈی کی جانب سے منعقد کی گئی۔
اس جلسے کی صدارت بھیونڈی کے نامور وکیل اور ممتاز اہل علم، چیرمین رئیس ہائی اسکول و جونیر کالج ایڈوکیٹ یاسین مومن صاحب نے فرمائی. جب کہ رسمِ اجرا کا فریضہ جناب شاہد لطیف صاحب (ایڈیٹر انقلاب) نے ادا کیا. اس جلسے میں نامور قلم کار ڈاکٹر الیاس وسیم صدیقی صاحب (مالیگاؤں) جناب ضیاء الرحمٰن انصاری (پرنسپل رئیس ہائی اسکول و جونیر کالج) ممتاز ادیب جناب محمد رفیع انصاری اور جناب عبدالملک مومن صاحب (سابق نائب صدر مدرس، صمدیہ ہائی اسکول و جونیر کالج ) نے بطورِ خاص شرکت فرمائی۔
جلسے کا آغاز مظفر وارثی کی حمد بآواز سہیل انصاری سے ہوا۔
ایڈوکیٹ سلیم یوسف شیخ نے بزم یارانِ ادب کے ذمہ داروں کے اسمائے گرامی کا اعلان کیا جنھوں نے گل ہائے محبت پیش کر کے مہمانان کا استقبال کیا۔
ازاں بعد ناظم جلسہ جناب اقبال عثمان مومن نے اسٹیج پر تشریف فرما مہمانوں کا تعارف پیش کیا۔ خاص طور پر انھوں نے صاحب اعزاز اصغر حسین قریشی کا تعارف پیش کر کے ان کے درجات بلند کیے۔
پروگرام کا آغاز جناب عبدالملک مومن سے ہوا انھوں نے تحقیق و تنقید کی اس کتاب پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے اس میں رہی کمیوں کی نشان دہی کی. انھوں نے اپنے خطاب میں بھیونڈی سے شائع ہونے والے مولانا عبدالصمد نرول کی کتابوں کو نظر انداز کرنے نیز سفر نامہ حج پر تبصروں کو شامل اشاعت نہ کرنے کا بھی ذکر کیا. اس کے بعد پرنسپل ضیاء الرحمٰن انصاری نے تحقیق سے متعلق ایک مثال دیتے ہوئے، نیز اس کتاب کو آئندہ نسلوں تک منتقل کر نے اور ان کے نثر پاروں کو محفوظ رکھنے کی ایک اچھی کوشش قرار دیا. انھوں نے فرمایا کہ اس نوع کے کام میں جو دلچسپی، لگن، محنت اور تحقیق کے نتائج اخذ کرنے میں احتیاط کی جو ضرورت ہے مصنف اس سے بہر حال واقف ہیں اور انھوں نے اس تصنیف میں اس کا ثبوت بھی پیش کیا ہے۔
بعد ازاں معروف ادیب جناب محمد رفیع انصاری صاحب نے اس تصنیف اور مصنف پر اپنے چٹکیوں بھرے انفاز میں خطاب فرمایا. موصوف نے اس کتاب کے حوالے سے بھیونڈی کی دیگر قابلِ قدر کتابوں کو یاد کیااور ان سے متعلق بھی اظہارِ خیال فرمایا۔
ان کے بعد مالیگاؤں سے تشریف لائے ڈاکٹر الیاس وسیم صدیقی نے تحقیق کے اپنے تجربات بیان کیےاور اس کتاب کی پذیرائی کرتے ہوئے انھوں نے بھیونڈی اور مالیگاؤں میں نثری کتابوں کا تقابل پیش فرمایا، ان کے خیال میں مالیگاؤں سے نثر کی متنوع کتابیں شائع ہوئی ہےاور بھیونڈی کے قلم کاروں کو بھی اس سمت میں کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔
ان کے بعد جناب شاہد لطیف صاحب نے کتاب کی رونمائی کی. رونمائی کے بعد اپنے خطاب میں سیماب اکبر آبادی، آرزو لکھنوی کے خانوادے سے تقابل کر تے ہوئے ان کی تیسری نسل میں اور قیصرالجعفری کی دوسری نسل میں ادب کی منتقلی کا ذکر کیا. اور پھر انھوں نے اصغر حسین قریشی اور ان کے خانوادے میں اکبر عابد، مظہر سلیم،سعیدہ مظہر سلیم، مبشر اکبر،محتشم اکبر اور عامر قریشی کی تحسین کی. اور اردو ادب میں ان کی جدوجہد کو بہ نظر تحسین دیکھا. انھوں نے اصغر حسین قریشی کی تحسین کرتے ہوئے ان کی تحقیق و تنقید اور نثر نگاری پر بھی اظہارِ خیال کیا اور اس کتاب کو بھیونڈی کا ایک تاریخی، دستاویزی اور حوالے کا کام قرار دیا. انھوں نے فرمایا کہ یہ کتاب اگرچہ 400 صفحات پر مشتمل ہے مگر اس کے حوالے سے کہا جا سکتا ہے کہ اس میں بھیونڈی کی تہذیبی تاریخ اور ادبی تاریخ و نثر کو بھی ایک خاص مقام دیا گیا ہے۔
ان کے بعد صاحب تصنیف جناب اصغر حسین قریشی نے بزم یارانِ ادب کے عہدیداران اور اراکین اور سامعین و مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور اپنے خطاب میں عامر قریشی کو کتاب کے سلسلے میں ہونے والی پریشانیوں کا ذکر کیا. انھوں نے اس کتاب سے متعلق تمام امور کو عامر قریشی کی ذاتی دلچسپی اور محنت قرار دیا. پھر سامعین نے مصنف کی پذیرائی کی اور انھیں تحفوں سے نوازا۔
ان کے بعد صدرِ اجلاس ایڈوکیٹ یٰسین مومن نے اپنے خطبہ صدارت میں فرمایا کہ اصغر حسین قریشی کی یہ کتاب انتہائی محنت سے ترتیب دی گئی ہے. اس میں عہد بہ عہد مختلف اصناف کا ذکر کرکے اس عہد کی تصنیفات اور ان کے مصنفین کا ذکر کیا گیا ہے. نیز مصنف نے اپنی ترجیحات کے بجائے سنہ تصنیف کو اہمیت دی ہے. اس طرح یہ کتاب تنقید و تحقیق کے معیار پر پوری اترتی ہے. اس کتاب کو نہایت سلیقے اور محنت سے ترتیب دیا گیا ہے. اور بھیونڈی میں اس کتاب کو ایک تاریخی حیثیت حاصل ہو گی. اور یہ کتاب مصنف کے اس کام کو ادب میں ایک دستاویزی اور تاریخ کے حوالے سے زندہ رکھے گی۔
ڈاکٹر مختار پیر محمد انصاری (نائب صدر،بزم یاران ادب) کے اظہارِ تشکر کے بعد جلسے کا اختتام ہوا. پروگرام کی کامیاب نظامت جناب اقبال عثمان مومن اور سلیم یوسف شیخ نے انجام دی۔
0 Comments