"طفلانِ چمن: ایک مطالعہ"
✍️عارفہ خالد شیخ
"طفلانِ چمن" کیا خوب عنوان منتخب کیا۔ محترم ریحان کوثر صاحب نے۔۔۔۔
بچّے پھول کی طرح نازک اور کومل ہوتے ہیں۔ اُن کا ذہن بھی ایک کچی کلی کی طرح ہوتا ہے۔ گر اس کی آبیاری اچھی باتوں سے کی جائے تو یہ کھل کر خوشبو بکھیرے دیں گے اور چمن میں ہر سُو شادابی چھا جائے گی۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ بچوں کو گر صحت مند اور سازگار ماحول دیا جائے۔ اُن کی تعلیم و تربیت عمدہ طریقے سے کی جائے تو اُن کی نشونما بھی عمدہ ہوتی ہے۔ وہ سماج میں ایک اچھے شہری بن کر اپنے فرائض انجام دیتے ہیں۔
اچھے بچے یعنی مہذب، با ادب، با عمل اور تہذیب و تمدن کے پاسدار۔۔۔۔
ایسے بچے یعنی صالح معاشرہ، صالح سماج اور ترقی یافتہ ملک۔
آج کے ترقی یافتہ دور میں بچوں کو تعلیمی میدان میں آگے بڑھنے کے بے شمار ذرائع میسّر ہیں لیکن تربیت کے لئے صرف گھر، خاندان، اسکول اور ماحول پر ہی انحصار رہتا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بچّے سب سے پہلے گھر سے سیکھتے ہیں۔ اس کے بعد ماحول کی باری آتی ہے۔۔
ایسے میں گر گھر کا ماحول اعلیٰ، اخلاقی اور تہذیب و ادب سے مزین ہوں تو بچے بھی اچھی قدروں کے حامل بنتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ بچوں کی تربیت کس طرح کی جائے۔ اس کا سب سے آسان طریقہ۔۔۔۔ اچھی، دلچسپ، مؤثر اور معیاری کتابیں ہیں۔ ای بک نے کتابوں کی اہمیت گو کم کر دی ہیں۔ لیکِن گر ہم ایسی کتابیں مُرتب کریں۔ جو بچوں کو اپنی طرف راغب کریں تو اس میں سب سے پہلا نام کہانیوں کی کتاب کا آئے گا۔ اسی کے مدِ نظر ریحان کوثر صاحب نے افسانچوں کا مجموعہ "طفلانِ چمن" ترتیب دیا۔
افسانچے دراصل چھوٹی، منی کہانیوں ہی کی طرح ہوتے ہیں ۔اس میں پڑھنے والا بور نہیں ہوتا بلکہ چند جملوں میں ہی اپنا ہدف پا لیتا ہے۔۔یہ چند سطور اس پر گراں نہیں گزرتے اور بچے آسانی سے اچھے اخلاقی پہلو سے واقف ہو جاتے ہیں۔
بچے کہانی سننا پسند کرتے ہیں۔ وہ زمانے لد گئے جب گھر کے بڑے بزرگ رات کو رضائی میں لپٹے بچوں کو پیار ،محبت اور شفقت سے کہانیاں سنایا کرتے تھے۔
آج ہر شخص ذاتی دنیا میں رہنا پسند کرتا ہے۔ حتٰی کہ بچے بھی۔۔ اس لئے ایک ایسی کتاب کی اشد ضرورت محسوس ہوئی جو ایسی کہانیوں پر مبنی ہوں۔ جس سے بچوں میں اچھی قدریں پنپیں۔اُن میں اچھی عادتیں۔۔ جیسے ۔ہمدردی ، نیکی ، خلوص ایک دوسرے سے مل جل کر رہنا ،لوگوں کی بھلائی کرنا جیسی خصوصیات پیدا ہوں ۔
اب چونکہ مشترکہ خاندان کا تصور نا پید ہے۔ اِس کے علاوہ لوگوں کی مصروفیات بڑھ گئیں ہیں۔ ایسے میں گر اُنھیں اچھی اور معیاری کتابیں فراہم کی جائیں تو بچے کسی کے مرہونِ منت نہیں رہتے ۔وہ ان کتابوں کے مطالعہ سے بذاتِ خود اپنے اندر اچھی باتیں اور اچھائی پیدا کر سکتے ہیں۔ اپنی تہذیب و تمدن سے، اپنی ثقافت سے روشناس ہو سکتے ہیں۔اور سماج میں عزت کا مقام حاصل کر سکتے ہیں۔
معیاری کتابیں بچوں کی تربیت میں بہترین رول ادا کرتی ہیں۔ معیاری افسانچے بچوں کی ہمہ جہت ترقی و شخصیت سازی میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔
اسی کے پیشِ نظر محترم ریحان کوثر صاحب نے "طفلانِ چمن" کو خوبصورت ترتیب و تدوین سے آراستہ و پیراستہ کرتے ہوئے اس کی اشاعت کی۔
آج اِسے اپنے ہاتھوں میں دیکھ کر میں بہت خوش ہوں۔
اس میں معتبر اور معزز افسانچہ نگار وں کے افسانچوں کی کہکشاں ہیں۔جس میں اس نا چیز کا بھی ایک افسانچہ بنام "تربیت" موجود ہے۔اس کے لئے محترم ریحان کوثر صاحب کا بہت شکریہ۔
یہ افسانچہ نگار اور اُن کے افسانچے وہی ہیں۔ جو انور مرزا صاحب کی زیرِ نگرانی میں بڑے منظم طریقے سے چلنے والا افسانچہ گروپ "افسانہ نگار" ہے جو کامیابی سے رواں دواں ہے۔ اور ہر گزرتے وقت کے ساتھ اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑتے جا رہا ہے۔اللہ نظر بد سے بچائے۔آمین
کتاب کی تعریف میں کیا کہوں۔۔
کتاب کے افسانچے ادیبوں کے زرین قلم سے نکلے ہوئے سنہری موتی ہیں۔جو جتنا چن لے اتنا مالا مال ہو جائے۔۔
ہر افسانچہ ایک اعلیٰ قدر سے روشناس کرواتا ہے۔
سلام سر کا شروعاتی افسانچہ بچوں کی نفسیات کو اجاگر کر اس کے سد باب کی عمدہ کاریگری نظر آیا ۔۔۔
بچوں کا معصوم ذہن اپنے ہم عمر کے اچھے برے ریمارک جلدی قبول کر لیتا ہے۔ایسے میں والدین کو بڑی سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اُن کے مثبت پہلووں پر روشنی ڈالتے ہوئے احساس کمتری سے نکالنا ہوتا ہے۔ یہی اِس افسانچے کا مقصد نظر آیا۔
اسی طرح "تحفہ"۔۔ ہمدردی اور بھلائی سکھاتا افسانچہ۔ یہ باور کرانے میں کامیاب رہا کہ لینے میں نہیں دینے میں مہا نتا ہے۔
ایم اے حق صاحب کے افسانچے نے بچوں میں ایمانداری سے تعلیم حاصل کرنے کا پیغام دیا ہے۔
پیسے دے کر پاس ہونے والا سرٹیفیکیٹ حاصل کر سکتا ہے۔علم نہیں۔۔۔
اسی طرح اچھے کام کرنے اور دوسروں کی مدد کرنے کا عمدہ پیغام ایم مبین صاحب کے افسانچے نے دیا۔
"سبق"۔۔۔ بچوں میں پڑھائی کی اہمیت سے واضح کروا رہا ہے تو انور مرزا صاحب کا افسانچہ وقت کی قدر و قیمت کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔اس سے بچوں کو اپنی ذمّے داری کا احساس ہو گا کہ ہمیں آج کا کام کل پر نہیں چھوڑنا چاہئے۔
اسی طرح ہمدردی، بڑوں کی عزت اور احترام کے جذبے جگاتے افسانچے بھی اہمیت کے حامل ہیں۔
"میں ہی میرا کلاس میٹ بھی"۔۔۔۔قیوم اثر صاحب کے افسانچے نے بچوں کو دین اور دینی معلومات کی اشد ضرورت پر توجہ مبذول کروائی ہے۔
حاضر دماغ بچے۔۔ اور مکروہات کی پہچان ۔۔ یہ بھی ہمارے سماج کے لئے ضروری ہے۔
خان حسنین عاقب صاحب کا افسانچہ۔موبائیل کی لت سے بچوں کو بچاتا ہوا نظر آیا۔ بچے اپنے قیمتی وقت کو فضول اور بے کار نہ گنوائیں۔۔اس بات کو ملحوظ خاطر رکھنا بھی ضروری ہے۔
اندرون میں دیگر افسانچوں میں بھی بچوں کے لئے عمدہ پیغامات پنہان تھے۔۔
"جیسے لینے میں نہیں دینے میں بڑا پن ہے۔"
"سچی خوشی دوسروں کو خوش دیکھ کر ملتی ہے۔"
"اپنا کام خود کرنا چاہئے."
"ماں کی عظمت و مرتبے کی پہچان اور اہمیت"
"پڑھائی کی اہمیت و افادیت بتلاتے ہوئے لڑکیوں کی تعلیم بھی ضروری ہے۔"
"ایمانداری میں برکت ہے۔"
"خودداری میں عزت ہے۔"
"اچھا کروگے اچھا ہو گا۔"
"چوری کرنا بری بات ہے۔"
"کسی کو پریشان نہیں کرنا چاہئے۔"
"کر بھلا تو ہو بھلا"
"اُستاد کا احترام کرنا چاہئے۔"
"لڑائی جھگڑا نہیں کرنا چاہئے۔"
"اسکول میں اپنا ٹفن مل بانٹ کر کھانا چاہئے۔"
"جھوٹ بولنا بری بات ہے۔"
"آپس میں محبت سے رہنا چاہئے۔"
"نقل نہیں کرنی چاہئے۔"
"دل لگا کر پڑھنا چاہئے۔"
ہمیں اپنے اخلاق اچھے رکھنے چاہئے ۔۔"
وغیرہ وغیرہ۔۔
ایسے اور اسی طرح کی کئی زرین باتیں ان افسانچوں کے ذریعے سکھائی گئیں ہیں۔
اور مثبت پیغام ارسال کرنے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ نونہالان قوم و مُلک کا سرمایہ برباد ہونے سے بچ جائے۔
اس کے علاوہ مرحوم ایم اے حق صاحب کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے۔اُن کے کئی عمدہ و بہترین افسانچوں کو بھی اس مجموعہ میں شامل کیا گیا۔
ایم اے حق صاحب سے میری ادبی شناسائی ایک آن لائن افسانچہ گروپ میں ہوئی۔
میرے افسانچے پر اظہارِ رائے کر اُنھوں نے اصلاح بھی کی تھی۔جو اُن کی پارکھی نظر اور اصلاحِ ادب کی ترجمانی کرتا ہے۔ وہ ایک ادبی خدمت گار تھے۔ لوگوں میں خصوصاً بچوں میں ادبی رحجان پیدا کرنے میں اُن کا بڑا ہاتھ ہے۔
انسان دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے اور چھوڑ جاتا ہے اپنے پیچھے نہ مٹنے والے نشانات۔۔۔۔
اُن کا ادبي ذخیرہ ثمر دار درختوں کی طرح ہے۔جن کے پھلوں سے نوجوانانِ ملت و مُلک استفادہ حاصل کرتے رہیں گے۔
اللہ اُن کی مغفرت فرمائے۔ آمین
کامٹی کی سرزمین اتنی زرخیز ہے اس کا پتہ یہاں سے اٹھنے والی مہک بذریعۂ اردو شعر و نثر اديبوں کے روپ میں ہوئی۔ اُن میں سے ایک وکیل انجم صاحب بھی ہیں۔
موصوف کے متعلق پڑھ کر اُن کی خوبیوں کا احساس ہوا۔وہ ایک عمدہ شاعر ہیں۔
یہ میری خوش نصیبںی ہے کہ مجھے ایک اور قابل شخصیت کا علم ہوا۔
بچوں کے لئے، بچوں کی ہمہ جہت شخصیت سازی اور نشوونما کے لئے۔۔۔ نیز ایک صحت مند معاشرہ، سماج اور مُلک کے لئے ایک آئیڈیل افراد فراہم کرنے کا بیڑہ اٹھانے والے ایک قابل، مشفق ، محنتی اور مخلص انسان ریحان کوثر صاحب کو اُن کی اِس خوبصورت اور عمدہ کاوش کے لئے میں دل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتی ہوں۔
اللہ کرے محترم جس جانفشانی اور انتھک کوششوں سے اُردو کی بقاء، ترقی و ترویج کے لئے کوشاں ہیں۔ اُنہیں اس میں خوب کامیابی ملے۔
وہ دن دور نہیں جب تاریخ کے پنّوں پر اِن کی بے لوث خدمات کو سنہری حرفوں میں رقم کیا جائے گا۔
آخر میں بس اتنا ہی کہ راقم کوئی بہت بڑی ہستی نہیں۔ ایک معمولی قلم کار ہے۔جو ادب سے دلچسپی رکھتی ہے۔
0 Comments