Ticker

6/recent/ticker-posts

قیامت (افسانچہ) ✍️اقبال حسن آزاد

قیامت
(افسانچہ)
✍️اقبال حسن آزاد

بینر :محمد نعیم یاد (پاکستان)

رات کے گونجتے ہوئے سناٹے میں ہوڑا دلی ڈیلکس اکسپرہس تیزی سے اپنی منزل کی طرف بڑھتی جا رہی تھی۔اس نے اپنا ہولڈال کھولا اور برتھ پر اپنا بستر لگا کر لیٹ رہا۔باون برس کی لمبی زندگی میں وہ پہلی بار دلی جا رہا تھا۔دلی جو بھارت کی راج دھانی ہے ....دلی جو بھارت کا دل ہے ....اور وہ طرح طرح کے سپنوں کے تانے بانے بُنتے بُنتے نیند کی وادیوں میں اُتر گیا۔
پتہ نہیں وہ کون سا شور تھا جس سے اس کی نیند اُچاٹ ہو گئی۔پہلے تو اس نے ادھ کھلی آنکھوں سے اس شور کی وجہ جاننے کی کی کوشش کی ،مگر دوسرے ہی لمحے اس کا ذہن پوری طرح جاگ گیااور وہ چونک کر اُٹھ بیٹھا ۔سارا کمپارٹمنٹ ہچکولے لے رہا تھا اور مسافروں کا سامان سارے میں اُڑتا پھر رہا تھا۔۔لوگوں کی چیخ و پکار کے بیچ اچانک اس کے ذہن میں گھنٹیاں سی بجنے لگیں۔گھبرا کر اس نے سوچا....کہیں قیامت تو نہیں آ گئی؟اسی لمحے اس کے سر پر کوئی سامان گرا اور اس کی آنکھوں کے سامنے نیلی پیلی چنگاریاں سی اُڑنے لگیں۔اور پھر وہ تاریکی کے اتھاہ سمندر میں ڈوبتا چلا گیا۔
جب اس کی آنکھ کھلی تو تیز سرچ لائٹ کی روشنی میں اس نے خود کو بے شمار گھائلوں اور بکھرے ہوئے سامان کے درمیان پایا۔اس نے اُٹھنے کی کوشش کی ،مگر اس کوشش کے ساتھ ہی کمر میں درد کی ایک تیز لہر پیدا ہوئی اور اسے پھر سے لیٹ جانا پڑا ۔اور پھر اس نے اسی حالت میں دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کیا کہ اس کی جان بچ گئی۔وہ سوچنے لگا کہ اگر وہ اس حادثے میں مر گیا ہوتا تو اس کی بیوی نہ جانے کہاں کہاں ٹھوکریں کھاتی پھرتی ؟ اس کی دونوں جوان بیٹیوں کی شادی کس طرح ہو پاتی؟اس کے چھوڑے چھوٹے بچوں کا کیا ہوتا؟اگرخدا نخواستہ ایسا ہوجاتا تو ضرور ہی اس کے خاندان والوں کے لیے قیامت آ جاتی۔
اس کی واپسی پر اچھا خاصہ جشن منایا گیا۔ میلاد کی ایک محفل منعقد کی گئی۔دوستوں کی دعوت ہوئی ۔سبھوں نے اسے اس طرح بچ جانے پر مبارکباد دی۔اس کے بچے تو اسے دیکھ کر اس سے لپٹ گئے تھے اور اس کی بیوی کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو آ گئے تھے۔اس وقت وہ خود کو دنیا کا سب سے خوش نصیب انسان سمجھ رہا تھا۔
چوٹ معمولی تھی ۔دو تین آرام کرنے کے بعد اس نے باقی چھٹیاں کینسل کروا دیں اور آفس جانا شروع کر دیا۔
ایک دن جب وہ شام کے وقت دل ہی دل میں پُرانے وقتوں کا کوئی گیت گنگناتے ہوئے گھر میں داخل ہوا تو بیوی کی چیخ پکار سن کر اسے دروازے پر ہی رُک جانا پڑا۔اس کی بڑی لڑکی ماں سے کہہ رہی تھی۔
”مگر اس میں ابا کا کیا قصور؟اس عمر میں بے چارے اتنی محنت کرتے ہیں ۔اب ان کی چھوٹی سی آمدنی میں گھر کا خرچ نہیں چلتا تو وہ کیا کریں۔ “
”ارے! انہوں نے زندگی میں کیا ہی کیا ہے جو اب کریں گے۔اگر وہ اس ایکسیڈنٹ میں مارے جاتے تو کم سے کم تم دونوں کی ڈولیاں تو اُٹھ جاتیں۔سنا ہے کہ سرکار نے مرنے والوں کے وارثوں کو پچاس پچاس ہزار روپے دیے ہیں۔“
بیوی کی بات سنتے ہی اسے ایسا لگا کہ اس کے سر پر کسی کا بھاری سامان آ گرا ہو ۔اس کی آنکھوں کے آگے نیلی پیلی سی چنگاریاں اُڑنے لگیں اور اسے سارا مکان ڈولتا نظر آنے لگا۔ایک لمحے کو اس کے دل میں یہ خیال آیا کہ کہیں قیامت تو نہیں آ گئی؟
اور وہ بے ہوش ہو کر زمین پر گر پڑا۔
٭٭٭
(مطبوعہ: شمع/ششما،نئی دہلی،فروری 1978ء، مشمولہ:افسانوی مجموعہ: ”قطرہ قطرہ احساس“1987ء)

Post a Comment

0 Comments