Ticker

6/recent/ticker-posts

قانون کا دروازہ افسانہ نِگار ✒️ فرانز کافکا ترجمہ✍️ ڈاکٹر خالد سہیل تلخیص ✒️ انور مِرزا

قانون کا دروازہ
افسانہ نِگار ✒️ فرانز کافکا
ترجمہ✍️ ڈاکٹر خالد سہیل
تلخیص ✒️ انور مِرزا
قانون کا دروازہ افسانہ نِگار ✒️ فرانز کافکا ترجمہ✍️ ڈاکٹر خالد سہیل تلخیص ✒️ انور مِرزا

قانون کے دروازے پر ایک پہرہ دار کھڑا ہے۔ اس پہرہ دار کے پاس دیہات سے ایک شخص آتا ہے اور اندر داخل ہونے کی اجازت مانگتا ہے۔ پہرہ دار کہتا ہے کہ اِس وقت اُسے اندر داخل ہونے کی اجازت نہیں مل سکتی۔
’’ کیا بعد میں کبھی اجازت ملے گی؟‘‘
’’ایسا ممکن ہے۔‘‘پہرہ دار کہتا ہے۔’’لیکن اس وقت نہیں!‘‘
چونکہ دروازہ کھلا ہے اور پہرہ دار ایک طرف کھڑا ہے۔ وہ شخص جھک کر اندر دیکھتا ہے۔
پہرہ دار اس دیہاتی کو اتنا متجسس پاتا ہے تو ہنس کر کہتا ہے ’’اگر تم میں اندر جانے کی خواہش اتنی ہی شدید ہے تو میرے منع کرنے کے باوجود اندر چلے جاؤ لیکن یہ یاد رکھو کہ میں طاقتور ہوں اور اندر بھی کئی پہرہ دار ہیں۔‘‘
دیہاتی کو اس قسم کے جواب کی توقع نہ تھی۔ اس کا خیال تھا کہ قانون کا دروازہ ہر شخص کے لیے کھلا رہتا ہے اور ہر کسی کو ہر وقت اس کے اندر جانے کی اجازت ہوتی ہے۔
دیہاتی فیصلہ کرتا ہے کہ وہ اس وقت تک دروازے کے باہر انتظار کرے گا جب تک کہ اسے اندر جانے کی اجازت نہیں مل جاتی۔ 
 دیہاتی وہاں دنوں‘ ہفتوں‘ مہینوں اور برسوں بیٹھا رہتا ہے۔ وہ کئی دفعہ پہرہ دار سے اندر جانے کی اجازت مانگتا ہے لیکن منع کر دیا جاتا ہے۔
یہ شخص دیہات سے اپنے ساتھ لائی ہوئی بہت سی چیزیں پہرہ دار کو رشوت کے طور پر پیش کرتا رہتا ہے۔
انتظار کی اس طویل مدت کے دوران وہ دیہاتی باقی پہرہ داروں کو بھول جاتا ہے اور اس پہلے پہرہ دار کوہی قانون تک رسائی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتا ہے۔ شروع میں تو وہ اپنی بدقسمتی کو بآوازِ بلند کوستا ہے لیکن جوں جوں وہ بوڑھا ہوتا جاتا ہے، صرف بڑبڑاتا رہتا ہے۔
آہستہ آہستہ اس کی بینائی کمزور ہونے لگتی ہے۔ وہ نہیں جانتا کہ دنیا واقعی تاریک ہو رہی ہے یا اسے وہ ایسی نظر آ رہی ہے لیکن اس تاریکی میں بھی وہ اس روشنی سے باخبر ہے جو قانون کے دروازے سے نمودار ہو رہی ہے۔
دیہاتی جانتا ہے کہ وہ زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہے گا اور بالآخر برسوں کی امیدوں اور انتظار کے بارے میں سوچ کر وہ اس پہرہ دار کو ہاتھ کے اشارے سے قریب بلاتا ہے۔ پہرہ دار قریب آ کر اس پر جھکتا ہے کیونکہ گزرتے وقت کے ساتھ ان کے درمیان قدوں کا فاصلہ اتنا بڑھ چکا ہے کہ دیہاتی اپنے آپ کو بہت چھوٹا اور حقیر سمجھنے لگا ہے۔
’’اب تم اور کیا جاننا چاہتے ہو۔ کیا تمہارے سوالوں کا سلسلہ ختم نہیں ہوگا؟‘‘
’’ہر شخص قانون تک رسائی چاہتا ہے۔‘‘ دیہاتی کہتا ہے۔ ’’لیکن کیا وجہ ہے کہ ساری عمر میں اِس دروازے کے آگے منتظر رہا اور اِس دوران کسی اور شخص نے اس دروازے سے اندر جانے کی اجازت نہیں چاہی؟‘‘
پہرہ دار سمجھ جاتا ہے کہ اس شخص کا آخری وقت آگیا ہے اور اس کی سماعت بھی کمزور ہو گئی ہے اس لیے وہ اس کے کان میں چیخ کر کہتا ہے…
’’اِس دروازے سے کوئی اور داخل ہو ہی نہیں سکتا تھا کیونکہ یہ دروازہ صرف تمہارے لیے بنایا گیا تھا اور اب میں اسے بند کرنے لگا ہوں۔‘‘
✍️

Post a Comment

0 Comments