افسانہ گروپ ایونٹ نمبر 27 حب الوطنی کی کہانیوں کی جھلکیاں
✍️ڈاکٹر یاسمین اختر
ہمیں ناز ہے کہ ہم ایسے ملک کے باشندے ہیں جہاں مختلف مزہب کے ماننے والے لوگ رہتے ہیں۔کچھ لوگ ہمیں الگ کرنے کی کوشش میں ضرور لگےہیں۔لیکن وہ اپنے مقصد میں کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ہمیں بھی چاہیے کہ ہم ایمانداری کے راستے پر چلیں ۔ایک دوسرے کے ساتھ اچھے اخلاق و عادات سے پیش آءیں۔کل میں کالج جا رہی تھی۔ایک مسلم بزرگ رکشہ سے اترے اور آگے بڑھ گیے۔رکشے والے نے اپنی مزدوری مانگی اور وہ ہنس کر نکل گےء۔ پھر کیا تھا رکشے والے نے مسلمانوں کو اتنا برا بھلا کہا کہ میں بتا نہیں سکتی۔اس طرح کی حرکتیں سب لوگ نہیں کرتے ہیں لیکن سب لوگ، دوسروں کی نظروں کا نشانہ بن جاتے ہیں۔دوسرے مذہب کےلوگ ہماری ایمانداری کی مثالیں دیتے تھے ۔آج ہم ہی بے ایمان کے نام سے جانے جا رہے ہیں۔
ہم اس ملک میں رہتے ہیں جہاں گنگا، جمنا اور برہمپتر جیسی ندیاں بہتی ہیں۔یہ ندیاں مٹی کو زرخیز بناتی ہیں۔مونسونی ہؤاوءں کی وجہ سے بارش ہوتی ہے۔موسم بدلتا ہے۔طرح طرح کے پھل اور پھول اگتے ہیں۔ کشمیر ہماری جنت کی نشانی ہے۔ اور کیا چاہیے ہمیں۔۔۔۔۔؟ ویسے بھی کچھ ہو یا نہ ہو ہم جہاں پیداہوتے ہیں وہ جگہ ہمیں جان سے زیادہ پیاری لگنے لگتی ہے۔ہم سب اپنے وطن سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ وطن کے چھوٹے بڑے دیوار وں کے ایک ایک اینٹ میں ہماری محبت بسی ہے
ہمیں چاہیے کہ ہم سچایء کے راستے پر چلیں۔اپنی زبان سے اچھی اور سچی بات بولیں ۔کویء ایسا کام نہ کریں جس سے دوسروں کو تکلیف ہواور ہماری بدنامی ہو۔
کہانی کیا ہے۔۔۔۔۔؟۔ وقت اور حالات کا تقاضا ہے۔قلم کار وہی لکھتا ہے جو اپنے آس پاس دیکھتا ہے.اس ایونٹ کی کہانیاں آج کے دور کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔چند کہانیاں ایسی ہیں۔جنہیں پڑھ کر ہمیں فخر محسوس ہوا۔کچھ کہانیاں ایسی ہیں جن کے مطالعے سے آنکھیں نم گئیں۔ہم پر طرح طرح کے الزامات لگائے جارہے ہیں۔ ہمیں آتنکوادی قرار دیا جا رہا ہے۔۔آج نفرت کے ٹھیکے داروں نے ایسا ماحول پیدا کر دیا ہے کہ ہمچاہ کربھی اپنی بے گناہی کا ثبوت نہیں دے سکتے ہیں۔ہمیں نیچا دکھانے کے لئے میڈیا والے بھی ہاتھ دھو کر پیچھے پڑے ہیں۔لیکن جھوٹ کی عمر زیادہ لمبی نہیں ہوتی۔ ایک نہ ایک دن سچائی ضرور سامنے آئے گی۔ ہمت سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے فرائض سے پیچھے نہ ہٹیں۔ہم اپنی محنت، ہمت،ایمانداری اور اچھی کوششوں سے آزادی میں شہید ہونے والے ان لوگوں کا نام پھر سے جوڑ سکتے ہیں۔جنہیں تواریخ سے نکال کر پھینک دیا گیا ہے۔اچھے اخلاق و عادات پتھر دل کو بھی موم بنا دیتے ہیں۔آج اگر ہم خود پر غور کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ بہت حد تک قصور ہمارا ہے۔ہم شریعت سے دور رہنے لگے ہیں۔اسلام سے دوری بنانا یعنی زمانہء جاہلیت کے حالات پیدا کرنا ہے۔آج ہم جن مصیبتوں میں گرفتار ہیں بہت حد تک وہ ہمارے اعمال کے نتائج ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
"ایک وقت ایسا آئے گا جب تمہاری تعداد بہت زیادہ ہو گی لیکن تم سیلاب کے جھاگ کی طرح بے حیثیت ہوگے۔اور اللہ تعالی تمہارے دشمنوں کے دلوں سے تمہارا رعب نکال دے گا۔"
کسی نے فرمایا اس کی وجہ کیا ہے۔۔؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں کہا :
دنیا سے محبت اور موت سے نفرت۔۔۔۔۔
علامہ اقبال نی قوموں کے عروج و زوال کا فلسفہ کچھ اس طرح بیان کیا ہے:
میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے
شمشیر وسناں اول طاؤس و رباب آخر
آج کے دور میں انسان کو خدائی نظام اور قانون کی سخت ضرورت ہے۔مسلمان اپنے فرائض سے غافل ہوگئے ہیں۔نئی نسل کے نوجوان اسلامی تعلیمات سے بھی پوری طرح واقف نہیں ہیں۔ایسے میں ان سے اچھے کردار اور اخلاق کی امیدیں کیسے کی جا سکتی ہیں۔۔؟ یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ اپنے اور دوسرو ں کے لئے بہتر ثابت ہوں گے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ لوگ دین کی طرف توجہ دیں۔حضور صلی اللہ وسلم کی حیات مبارکہ کی پیروی کریں۔ جھوٹ، فریب، لالچ، بغض،کینہ، بداخلاقی، نافرمانی، مکاری، دغا بازی سے بچیں۔اللہ خود ہماری مدد کرے گا۔
اللہ تعالی اپنے بندوں سے بے پناہ محبت کرتا ہے۔وہ ہم پر آفتیں نازل نہیں کر سکتا ہے۔ہمیں ہمارے کیے کی سزا آخرت میں ملے گی۔یہ سب آزمائش ہیں۔پروردگار اپنے بندوں کو بیدار کرنا چاہتا ہے۔تاکہ بندہ توبہ کر لے۔اور صحیح راستہ اختیار کرے۔
"جب تک آدمی کے بدن میں جان موجود ہے اور موت کے آثار ظاہر نہ ہوں اس وقت تک اس کے لیے توبہ کا دروازہ کھلا رہتا ہے۔"
آپ قلم کاروں کو بہت بہت مبارک ہو۔آپ سب اپنے وطن سے کتنی محبت کرتے ہیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ہر تحریرمیں حب الوطنی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔بہت بہت مبارک ہو۔۔۔ میں آپ قلمکاروں کی کہانیاں آپ لوگوں کی نذر کر رہی ہوں ملاحظہ فرمائیں۔۔۔
ماں تجھے سلام
بیٹا کہاں ہو تم ۔۔۔۔؟ گھرکب آؤ گے۔...؟ "ماں نے فکر مندی ظاہر کی۔ " ہاں۔۔! جلد ہی آجاؤں گا گاڑی کا بندوبست ہوجائے۔" بیٹے نے کہا۔
"لیکن تم ہو کہاں۔۔۔؟" "اپنے دوستوں کے ساتھ میچ دیکھنے آیا ہوں۔مس میچ نے سارا مزہ خراب کر دیا۔۔ "تم تو کہتےتھے ہم بڑے علمبردار ہیں۔جیت کا پرچم لہرا کر ہی آئیں گے۔"۔ "کیا بتاؤں امی ایک طرف مسلم ہائی اسکول کے لڑکے تھے۔دوسری طرف نو یوگ ودھیالےء(नवयुग विद्यालय) کے لڑکے۔۔۔۔ ہم جیت ہی گےء تھے۔Empire نے مس میچ کا اعلان کر دیا۔ شاید کریمنل مائنڈ کے تھے۔دوغلا پن کیا۔جھوٹ موٹ کا جیت کا ثبوت پیش کردیا۔سمجھ میں نہیں آتا ہم بھی تو اسی بھارت ماتا کی سنتان ہیں۔لوگ ہمیں اپنا دشمن کیوں سمجھتے ہیں۔۔؟۔ہمارے ساتھ یہ ناانصافی کیسی۔۔۔۔؟ اپنے ہی ملک میں، میں اکثر یہ سوال کیوں پوچھتا ہوں میں کون ہوں۔۔۔۔۔؟ لوگ مجھے غلط نظر سے کیوں دیکھتے ہیں۔۔۔؟ میں بھی ہندوستان کا باشندہ ہوں۔اپنے وطن سے بے پناہ محبت کرتا ہوں۔" "فکر مت کرو ایک نہ ایک دن سب ٹھیک ہو جائے گا۔" ماں نے تسلی دی۔۔بیٹے نے سرد آہ بھری اور کہا۔دیکھیے۔۔۔۔۔۔:
آپ قلم کاروں کو بہت بہت مبارک ہو۔آپ سب اپنے وطن سے کتنی محبت کرتے ہیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ہر تحریرمیں حب الوطنی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔بہت بہت مبارک ہو۔۔۔ میں آپ قلمکاروں کی کہانیاں آپ لوگوں کی نذر کر رہی ہوں ملاحظہ فرمائیں۔۔۔
ماں تجھے سلام
بیٹا کہاں ہو تم ۔۔۔۔؟ گھرکب آؤ گے۔...؟ "ماں نے فکر مندی ظاہر کی۔ " ہاں۔۔! جلد ہی آجاؤں گا گاڑی کا بندوبست ہوجائے۔" بیٹے نے کہا۔
"لیکن تم ہو کہاں۔۔۔؟" "اپنے دوستوں کے ساتھ میچ دیکھنے آیا ہوں۔مس میچ نے سارا مزہ خراب کر دیا۔۔ "تم تو کہتےتھے ہم بڑے علمبردار ہیں۔جیت کا پرچم لہرا کر ہی آئیں گے۔"۔ "کیا بتاؤں امی ایک طرف مسلم ہائی اسکول کے لڑکے تھے۔دوسری طرف نو یوگ ودھیالےء(नवयुग विद्यालय) کے لڑکے۔۔۔۔ ہم جیت ہی گےء تھے۔Empire نے مس میچ کا اعلان کر دیا۔ شاید کریمنل مائنڈ کے تھے۔دوغلا پن کیا۔جھوٹ موٹ کا جیت کا ثبوت پیش کردیا۔سمجھ میں نہیں آتا ہم بھی تو اسی بھارت ماتا کی سنتان ہیں۔لوگ ہمیں اپنا دشمن کیوں سمجھتے ہیں۔۔؟۔ہمارے ساتھ یہ ناانصافی کیسی۔۔۔۔؟ اپنے ہی ملک میں، میں اکثر یہ سوال کیوں پوچھتا ہوں میں کون ہوں۔۔۔۔۔؟ لوگ مجھے غلط نظر سے کیوں دیکھتے ہیں۔۔۔؟ میں بھی ہندوستان کا باشندہ ہوں۔اپنے وطن سے بے پناہ محبت کرتا ہوں۔" "فکر مت کرو ایک نہ ایک دن سب ٹھیک ہو جائے گا۔" ماں نے تسلی دی۔۔بیٹے نے سرد آہ بھری اور کہا۔دیکھیے۔۔۔۔۔۔:
زمین چمن گل کھلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
0 Comments