Ticker

6/recent/ticker-posts

ایک لڑکی( 100لفظوں کی کہانی )✒️ ریحان کوثر

 ایک لڑکی

100لفظوں کی کہانی
افسانہ نِگار ✒️ ریحان کوثر
افسانہ نگار واٹس ایپ گروپ کی پیشکش
چوتھا ایونٹ،️ ادبِ اطفال
افسانچہ نمبر 34

ایک چھے سالہ لڑکی اپنے سے چھوٹے ایک لڑکے کا ہاتھ تھامے کہیں جا رہی تھی کہ اچانک دونوں گر پڑے۔ دونوں رونے لگے۔ میں نے لڑکے کو اُٹھایا تو وہ خاموش ہوگیا، لیکن لڑکی روتی رہی۔ دونوں کو ان کے ہاتھوں سے گرے بسکٹ کے پیکٹ اٹھا کر دیا لیکن لڑکی کا رونا بند نہ ہوا۔
کافی سمجھانے پر خاموش ہوئی تو پوچھا،
”بیٹا! کیا تمھیں کہیں چوٹ لگی ہے۔۔۔؟
لڑکی نے نفی میں سر ہلایا۔
پھر پوچھا،
”تم تو بہادر ہو پھر کیوں روئی۔۔۔؟“
لڑکی نے لڑکے کا ہاتھ پکڑا اور کہا،
 ”میرا بھائی گر گیا تھا نا۔۔۔!“

تبصرے و تجزیے

واہ! بہت عمدہ۔ یہ بالکل فطری ہے۔ ایک معصوم جذبے کی بہترین عکاسی۔ مبارک ہو۔
محمد علی صدیقی، مغربی بنگال

کاش ایسی محبت ہر بہن بھائی میں پیدا ہو۔ آج خونی رشتوں کی گرمی وقت اور حالات کے سبب سرد پڑ چکی ہے۔ آج کا دور بھائی مراد اور تاجو بہن کے قصوں سے بھرا پڑا ہے۔ وراثت اور زر، زمین کی جنگ نے حقیقی رشتوں میں دراڑ ڈال رکھی ہے۔ خود غرضی اور انا نے دلوں کے فاصلے بڑھا دیے۔ ضرورت ہے ان معصوم جزبوں کی جو حلاوت کی چاشنی سے دلوں میں محبت کے پھول کھلا دیں۔ اتنی پیاری کہانی ریحان صاحب جیسے مخلص ہی تشکیل دے سکتے ہیں۔ بہت بہت مبارک۔
عارفہ خالد شیخ، ممبئی مہاراشٹر

 بہت عمدہ، مختصر لیکن معنویت سے بھرپور۔۔۔ بہت مبارک باد ریحان کوثر صاحب
خان حسنین عاقب، پسد مہاراشٹر

"میرا بھائی گر گیا تھا نا!" کیا خیال ہے! کیا بات ہے! بہن کو اپنی چوٹ کی فکر نہیں، اپنے بھائی کی فکر ہے۔ ایسی فکر کا انداز صرف ایک چھوٹی سی بچی کا ہی نہیں ہوتا، آپ کسی دادی امّاں سے اُس کے بھائی کے بارے میں پوچھ کے دیکھیں، آنکھوں میں آنسُو لیے ایسا ہی جواب ملے گا، "میرا بھائی گر گیا تھا نا!" بہن چھوٹی ہو یا بڑی، اُس کے لیے اُس کے بھائی کی تکلیف اُس کی خود کی تکلیف ہوتی ہے۔ افسانہ نگار کو اس بے مثال رشتے کی باریکی کو افسانے میں ڈھالنے کے لیے ہزاروں سلام۔
ابوذر، ممبئی مہاراشٹر

یہ معصومیت بھری مختصر کہانی بہت پسند آئی۔ آخری جملہ متاثرکن ہے۔ دلی مبارکباد۔
اسید اشہر، جلگاؤں مہاراشٹر

واہ واہ واہ یہ ہے اصل بامقصد بہترین افسانچہ اطفال۔ میرے افسانچہ کے اجزائے ترکیبی پر کھرا اترتا ہوا ایک لافانی جزبہ بڑی بہن کا ماں کی نعمالبدل واہ بہت بہت مبارک زندہ باد۔
محمد سراج عظیم، دہلی

 ایک مکمل کہانی اور موثر بھی۔ وہ بھی سو لفظوں میں۔ اس فن میں ریحان کوثر صاحب کو مہارت حاصل ہے۔۔ مبارکباد۔
پرویز انیس، کامٹی مہاراشٹر

بہت خوبصورت اور پر اثر مختصر بھی۔ کتنا کچھ بیان کرتی چھوٹی سی داستان۔ مبارکباد ریحان کوثر صاحب
ایم صدام
 
ٹوٹتے رشتے، دم توڑ تے اخلاقی اقدار، ہمشیرہ مٹھاس بھرے رشتوں میں گھلے مادہ پرستی کے کڑواہٹ اور ان پاکیزہ رشتو ں کی آستینوں میں چھپے لالچ، بے مروتی، حق سلبی کے خنجر سے لہو لہو دل کی وادی میں جب ایک معصوم بچی کے محبت بھرا انداز اپنے بھائی سے ہمدردی اورعقیدت کے اظہار کی صورت میں اس طرح ادا ہوتا ہے کہ "میرا بھائی گر گیا تھا نا" تو ایسا محسوس ہوتا ہے صحیفہ محبت کے" نور پارے" دل کی تختی پر اندر باطن میں اتررہے ہیں اور ریگزار ہستی میں مرجھائے ہوئے رشتوں کے پھول کے انگ انگ میں خمارا وربانکپن بھر گیا ہے۔ اس بچی کے پیار میں ہم سارے جہاں کا پیار دیکھ لیتے ہیں ایک بھائی کے لیے بہن کے دل میں وقف املاک کی صورت میں ہے۔ ابھی کچھ نہیں بدلا سب کچھ ویسے ہی تو ہے، البتہ ہم اور ہمارے اقدار پیچھے رہ گئےہیں۔ یہاں بچے دو گرے تھے۔بھائی اور ایک اس کی بہن۔اٹھایا دونوں کو گیا۔ بہن اس لیے رو رہی تھی کے بھائی گر گیا تھا۔ پلکوں پر امنڈآنے والا آنسو اس کے اپنے درد کے لیےنہیں بلکہ بھائی سے بے پناہ محبت کا اظہار ہے۔ اس کے رونے کے پیچھے ایک اور وجہ کام کر رہی ہے۔ یہ دراصل اس کی اپنی گرفت محبت کے کمزور ہونے اور ہاتھ سے چھوٹ جانے کا غم بھی ہے۔ اپنے قیمتی اثاثے محبت کو حوادث زمانہ سے بچائے رکھنے کی ناکامی کا احساس ہے۔ جو میرا بھائی گر گیا تھا نا کی صورت میں ادا ہوا ہے۔ اس ننھی سے بچی کے دل میں اپنی محبت کی انتہا تو ہے لیکن اس کو مالا مال کرنے میں اس کے والدین کے اپنے بھائی سے اٹوٹ چاہت اور اپنی کمی کا احساس بھی ہے۔ جو بھائی کی عظمت اور محبت میں اضافہ کا سبب ہے۔ چھوٹی سی دنیا میں بھائی کی محبت کے محور پر گردش کرنے والے ہاتھوں سے محبت کا صحیفہ اس کی گرفت سے نکل کر زمین پر گرتے ہیں تو یہ اپنا درد بھول کر اس محبت کے صحیفے کے زخمی ہونے کا احساس اس کے اندر کی دنیا میں قیامت برپا کر دیتا ہے اور وہ رونے لگتی ہے۔ بھائی کی محبت سے لبریز پاکیزہ جذبے کو ازسر نودریا فت کرنے کی کوشش، رشتوں کے عظمت کی مینا کاری، اس افسانچے میں بڑی خوبی سے برتا گیا ہے۔ مبارک باد قبول فرمائیں۔
نثار انجم

دوسروں کے لیے جینا اور دوسروں کے درد کو اپنا دردسمجھنا یہی زندہ دلی ہے۔ ریحان صاحب کے افسانچے میں بھی بھائی بہن کے عظیم رشتے کے انمول پیار کی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔ وہ آنسو جو دوسرے کی تکلیف پر نکلے اس کا کیا کہنا۔ زبردست افسانچے پر ریحان بھائی کو زبردست مبارکباد۔
پینٹر نفیس، مالیگاوں مہاراشٹر

فنِّ افسانچہ نگاری اور خصوصاً 100 لفظی کہانیوں میں ریحان کوثر صاحب اپنا ایک منفرد مقام رکھتے ہیں اور جذباتیات پر انہیں عبور حاصل ہے۔ ”ایک لڑکی“ کس خوش اسلوبی سے بھائی بہن کی محبت کی عکاسی کرتی ہے۔ واقعی ناقابل بیان ہے۔ چند لفظوں میں اس پاک رشتہ کی حقیقت بیان کی ہے جس کی داغ بیل ایام طفلی سے ہی ڈل جاتی ہے اور یہ سو فی صد درست ہے کہ اس رشتہ میں بہن بھاٸی سے ہمیشہ سبقت لے جاتی ہے اسے ہر پل خود سے زیادہ اپنے بھائی کی فکر رہتی ہے۔ کامیاب تحریر کے لیے دلی مبارکباد۔
شارق اعجاز عباسی، دہلی

یہ بہن بھائی کے خوبصورت رشتے کو بیان کرتی کہانی ہے۔ نا کوئی تمہید نا کوئی درس۔۔۔پھر بھی چند الفاظ کے درمیان محبت پیار، فکر، تکلیف کے نرم و نازک دریا بہہ رہے ہیں۔
شاہ تاج، پونے مہاراشٹر

ریحان کوثر صاحب ابھی ابھی آپ کی ’ایک لڑکی‘ سے ملاقات ہوئی۔ سو لفظوں میں آپ نے گویا سو تولہ سونا تول دیا اور اس پر کلائمکس سونے پہ سہاگہ! بہت اچھا افسانچہ ہے۔ مبارکباد قبول فرمائیں۔
محمد رفیع الدین مجاہد، اکولہ مہاراشٹر

اس بچی نے سب کے دل میں جگہ بنا لی۔کاش ہم بڑے ہو کر بھی دوسرے کے دکھ درد کو سمجھتے۔۔۔ پیار کا پیغام۔۔۔ نئے اور نرالے انداز میں۔ مبارک ہو۔
ڈاکٹر یاسمین اختر

فطرت اور انسان کا رشتہ لازوال ہے۔ اس رشتے کو بڑی چابک دستی اور بے ساختگی کے ساتھ اس کہانی میں پیش کیا گیا ہے۔ چھوٹی سی کہانی میں بیانیہ بھی اور مکالمہ بھی۔
بچوں کو فطرت سے ہم آہنگ کرنے اور پابندی وقت کا درس دینے والی، سادہ زبان میں ایک بہترین کہانی۔ افسانچہ نگار مبارک باد کے مستحق ہیں۔
محمد ایوب، کامٹی مہاراشٹر

بھائی بہن کے رشتے میں بچپن کے پیار اور درد کی حقیقت کو افسانچے میں بڑی ہی پیاری مختصر کہانی میں خوب صورتی سے بیان کیا گیا ہے۔۔۔ ایک لڑکی کے لیے محترم ریحان کوثر کو دلی مبارکباد۔
تبسم اشفاق شیخ، پالگھر مہاراشٹر

ریحان کوثر صاحب کا افسانچہ بہت اچھا ہے بہن کے جذبات کی عکاسی کرتا ہے، بہنیں بھائیوں سے ماں جیسی محبت کرتی ہیں۔کم لفظوں میں بیان کی گئی خوبصورت کہانی۔

Post a Comment

0 Comments