Ticker

6/recent/ticker-posts

افسانچوں کا 100 فیصد بادشاہ : ریحان کوثر ✍️خالد بشیر تلگامی

افسانچوں کا 100 فیصد بادشاہ : ریحان کوثر
✍️خالد بشیر تلگامی
( کشمیر)

افسانچوں کا 100 فیصد بادشاہ : ریحان کوثر  ✍️خالد بشیر تلگامی

اس وقت ہندوپاک میں افسانچہ لکھنے والوں کی ایک کثیر تعداد سرگرم عمل ہے۔ان میں کچھ افسانچہ نگاروں کا اختصاص یہ ہے کہ وہ الفاظ کی محدودیت کے ساتھ لکھ رہے ہیں۔ان کی تعداد بھی کچھ کم نہیں ہے۔ لیکن اس سمت میں شہرت و مقبولیت دو چار ہی کے حصے میں آئی۔سو لفظی افسانچہ لکھنے والوں میں بہت ہی معروف نام ریحان کوثر صاحب کا ہے۔100 لفظی مملکت افسانچہ کی بادشاہت ان کے حصے میں آچکی ہے۔کیونکہ 100 الفاظ پر مشتمل افسانچوں کی کتاب"100 الفاظ کی 100 کہانیاں" کے لئے ان کی تاج پوشی ہو چکی ہے۔یوں میری نظر میں وہ افسانچوں کے 100 فیصد بادشاہ ہیں۔
محترم ریحان کوثر سے میری پہلی اور "آدھی ملاقات " آج سے ایک سال قبل وہاٹس ایپ گروپ " گلشن افسانچہ" میں ہوئی تھی۔اس وقت پوری دنیا عالمی وبا "کورونا " کے خوف اور لاک ڈاؤن کی مصیبت زدہ زندگی گزار رہی تھی۔پہلی بار جب میں نے ان کی ایک "سو لفظی کہانی" گروپ میں پڑھی تو بے حد متاثر ہوا تھا۔اور تب سے اب تک میری یہ تڑپ برقرار ہے کہ میں بھی اس فن میں اپنا کچھ کمال دکھاؤں۔ریحان صاحب کا، کہانی لکھنے کا فن سب سے جدا ہے۔موضوع،اسلوب، الفاظ کا انتخاب، کہانی پن،بنت اور نقطہ عروج، افسانچے کے یہ سارے فنی لوازم متاثر کن ہوتے ہیں۔بعض افسانچوں کے کلائمکس تو دل میں کانٹے کی طرح چبھ جاتے ہیں۔ایسے کلائمکس والے افسانچے ہیں۔ گوشت خور،پیارا کتا،وراثت،فائنل دستخط،بہادر لڑکی،بھارت نگر کا تالاب،بستر کا کونا،اندھیر چوکی وغیرہ (واضع ہو کہ اس فہرست میں اور بھی افسانچے ہیں)۔
افسانہ کے مقابلے میں افسانچہ لکھنا یوں بھی بہت کٹھن ہے ڈگر پنگھٹ کی،اس پر مستزاد 100 لفظوں کی محدودیت کے ساتھ لکھنا کسی کارنامے سے کم نہیں۔اور یہ کارنامہ ریحان کوثر صاحب نے محض ایک افسانچہ نہیں بلکہ 100 افسانچے لکھ کر دکھایا ہے۔
میں ان کی کتاب "100 لفظوں کی 100 کہانیوں " کا شدت سے منتظر تھا۔الحمدللہ کہ آج 14 اگست 2021 کو ان کی مذکورہ کتاب موصول ہوئی۔کتاب دے کر ڈاکیے کے جاتے ہی میں نے ولولوں کے ساتھ افسانچے پڑھنا شروع کیے۔سارے افسانچے پڑھنے کے بعد میں اپنے خیالات کو الفاظ کا جامہ پہنا رہا ہوں۔حالانکہ مجھے احساس ہے کہ میں وہ الفاظ تفویض نہیں کر پارہا ہوں جس کے یہ افسانچے مستحق ہیں۔میں اپنے تاثرات کے اظہار کے لیے اس مجموعے کا بے مثال افسانچہ "پیارا کتا" درج کر رہا ہوں۔

ڈاکٹر وکاس جین کا گھر ٹیلی فون کی گھنٹی سے گونج اٹھا۔
ڈاکٹر صاحب نے اداس چہرہ لیے فون ریسیو کیا تو دوسری جانب سے آواز آئی:
”ہیلو ڈاکٹر صاحب! میں ’راشٹر ماتا رانی پدماوتی وردھ آشرم‘ سے بات کر رہا ہوں۔ اخبار میں اشتہار دیکھ کر معلوم ہوا کہ آپ کا پیارا کتا دو روز سے لاپتا ہے۔ دراصل آپ کا کتا ہمارے آشرم آ گیا ہے۔ وہ آپ کی ’ماتا جی‘ کے ساتھ ہی کھانا کھاتا اور سوتا ہے۔ ان کے ساتھ دن بھر کھیلتا بھی ہے۔۔۔!
آپ یہاں آئیں اور اپنا ’کتا‘ واپس لے جائیں۔ شکریہ!“

سلطنت افسانچہ کے بادشاہ،ریحان کوثر صاحب کی خدمت میں دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتے ہوئے، میں انہیں بے حد ہدیہ تبریک و تحسین پیش کر رہا ہوں۔اور خالق کائنات کی بارگاہ میں دعا گو ہوں کہ افسانچوں کے 100 فیصد بادشاہ کو دنیائے ادب میں مزید مقبولیت اور پذیرائی نصیب ہو۔

Post a Comment

1 Comments