Ticker

6/recent/ticker-posts

روہن اور گاندھی ( 100لفظوں کی کہانی)✒️ ریحان کوثر

 روہن اور گاندھی

100لفظوں کی کہانی
افسانہ نِگار ✒️ ریحان کوثر
افسانہ نگار واٹس ایپ گروپ کی پیشکش
ایونٹ،️ گاندھی 

”روہن! تمھیں کس نے کہا کہ گاندھی بنو؟“ اسٹیج کے پیچھے مِس بھارتی روہن پر برسیں۔
”مِس! یہ ہمارا ہی آئیڈیا تھا۔“
”روہن! صرف چشمہ لگا کر تم گاندھی نہیں بن سکتے۔۔۔ تمھاری لاٹھی کہاں ہے۔۔۔ اور یہ خاکی چڈّی اور شرٹ اُتارو جلدی۔۔۔ تمھاری دھوتی؟ ابھی ویگ اور مونچھیں بھی لگانی ہے۔۔۔ اُف! وہاں اسٹیج پر تمھارا نام پکارا جانے والا ہے۔۔۔!! گاندھی بننا کوئی آسان کام نہیں سمجھے!“
” پھر مِس اب کیا کریں گے۔“
”دیکھو! تم نے چشمہ لگایا ہے۔ یہ گول کالی ٹوپی پہنو اور ویر ساورکر بن جاؤ! ویسے بھی اب بہت دیر ہو چکی ہے۔“

تبصرے و تجزیے

شاہ تاج: بہت خوب! جس طرح گاندھی جی کے چشمہ کو اُن کی پہچان بتایا جاتا رہا ہے تو اس میں بچے کا کیا قصور؟ اُس نے جو دیکھا اسی کو اپنایا۔ افسانچہ میں ایک معمولی سی چیز کی تبدیلی نے ایک فکر، ایک سوچ کو پوری طرح تبدیل کر دیا۔

محمد علی صدیقی: سچ ہے۔ گاندھی بننا آسان نہیں۔ عمدہ پیشکش۔ عمدہ خیال۔ 

تبسم اشفاق شیخ: بہترین پیغام۔ کسی کے حلیہ کو اپنا کر ہم ان جیسا نہیں بن سکتے اور گاندھی بننا واقعی آسان کام نہیں۔

ڈاکٹر نعیمہ جعفری پاشا: ریحان کوثر نے بہت اچھی ابتدا کی ہے۔ یہ مثال بھی سامنے رکھ دی ہے کہ بظاہر اس خشک موضوع سے با معنی دلچسپی کیسے کشید کی جاسکتی ہے۔

سلیم سرفراز: دو برعکس نظریات اور موجودہ حالات کی منظر کشی کرتا ہوا عمدہ اور فکرانگیز۔ افسانچہ۔

عارفہ خالد شیخ: بہت خوب۔ افسانچہ پسند آیا۔ آج گاندھی جی کے نظریات کا فقدان ہے۔ لباس بدل لینے سے آدمی کی شخصیت نہیں بل جاتی۔آج کل یہی ہو رہا ہے۔لوگ چولا بدل بدل کر لوگوں کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ اچھے نظریے کی پیش کش پر ریحان صاحب کو مبارک باد۔

حسین قریشی: بہت خوب۔ عمل سے اخلاق زندہ ہوتے ہیں۔ لباس سے نہیں۔

رخسانہ نازنین: ”گاندھی بننا کوئی آسان کام نہیں!“ ایک لمحے میں گاندھی سے ویرساورکر بنا دینا موجودہ سیاسی صورتحال کی طرف اشارہ ہے کہ گاندھی کے اصول ونظریات کی دھجیاں اڑادی گئی ہیں۔

شاہ نواز انصاری: ”ویسے بھی اب بہت دیر ہو چکی ہے۔“ کیا بات ہے!

قیوم اثر: تمھیں کس نے کہا تھا کہ گاندھی بنو۔۔۔؟ افسانچہ میں اتنا بڑا جملہ! جس کی وضاحت کئی صفحوں پر آجائے۔ گاندھی جی انسانوں کی دنیا کا واقعی بڑا نام ہے۔کلاس ٹیچر سچ کہا ہے۔ اس کی نقل بھی مشکل ہے۔جو سوانگ رچے جاتے ہیں وہ محض دلچسپی کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ گاندھی جی، ایک چشمہ،ایک دھوتی، ایک لاٹھی اور پاؤں کی چپل۔۔۔سچ کو تھام لیا۔سارا جگ فتح ہوا۔ریحان نے ١٠٠ لفظوں میں ایک تاریخ لکھ ڈالی جو بڑی بات ہے۔ ”صرف چشمہ لگا کر تم گاندھی بن نہیں سکتے۔“ عالم انسانیت پر بھاری طنز کیا ہے۔کون ہے جو رات کی نیند اور دن کا چین اپنی زمین کے لیے وقف کردے!! اور واہ! ریحان کوثر۔۔۔خاکی چڈی نے تو حالیہ پھیلی ہوئی منافرت کی خلیج کو بھی اشارہ دیا۔ یہاں۔۔۔بس نہیں!!!
گول کالی ٹوپی پہنو اور۔۔۔بن جاؤ! ایک چھوٹے سے افسانچہ نے تاریخ کے انگنت اوراق الٹ دیے۔ یہ ہوا بڑے اسٹیج کا ننھا منا مکالمہ۔اگر پیش کردیا جائے تو جتنا میں نے لکھا ہے اس کی تشریح ضروری ہوگی۔ تب ہی نفس مضمون تک پہنچا جا سکے گا۔
لاٹھی مبارک، چشمہ مبارک، خاکی چڈی مبارک، دھوتی مبارک اورگول کالی ٹوپی! ایوینٹ کو ایسے ہی دریاؤں اور کوزوں کی تلاش رہے گی۔جی خوش ہوا۔

ڈاکٹر فرخندہ ضمیر: ریحان کوثر صاحب کا افسانہ بہترین طنز ہے آج کے حالات پر، اچھے فنکار کی یہی علامت ہے کم لفظوں میں بہت کچھ کہ دے۔ 

معین الدین عثمانی: ریحان کوثر نے اختصار پسند ی میں اکثر وبیشتر کمال کا ہی مظاہرہ کیاہے۔مگر اس مرتبہ تو حد درجہ کمال کردیا ہے۔ داد دیے بغیر رہا نہیں جارہا ہے۔ بہت خوب۔ بہت عمدہ۔ماشاءاللہ۔ اللہ قلم کی روانی اسی طرح قایم رکھے۔

سید اسماعیل گوہر: چند لفظوں میں صد سالہ تاریخ بیان کر دی آپ نے۔

سراج فاروقی: ریحان کوثر صاحب نے ”روہن اور گاندھی“ میں گاندھی اور ساورکر کو لے کر جس طرح افسانچہ بنا ہے کیا کہنے؟افسانچے کے مطابق اور حقیقی زندگی میں بھی اگر دیکھیں تو گاندھی جی بننا آسان کام نہیں ہے۔ بڑی قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔ ایک دوسرے اینگل سے بھی اگر اس افسانچے کے بارے میں غوروفکر کریں تو اس افسانچے سے یہ بات بھی کھل کر سامنے آتی ہے کہ اچھا آدمی بننا آسان کام نہیں ہےاور برا بننے کے لیے دیر نہیں لگتی۔ افسانچہ کسا ہوا ہے۔ ٹریٹمنٹ جاندار ہے۔ کلائمکس کے کیا کہنے۔ سو لفظوں میں ایک اہم مضمون کو باندھنا کوئی معمولی بات نہیں۔ بڑی ہنر مندی کا کام ہے۔ 

تنویر اختر جمشید پور: آر ایس ایس ذہنیت پورے ملک میں چھا گئی ہے۔ ٹیچرس بھی گاندھی سے زیادہ ساورکر کے نظریات کو فوقیت دیتے ہیں۔ ملک کی صورتحال بہت نازک دور سے گزر رہی ہے۔ فرقہ پرستوں نے ذہنوں میں جو زہر بھر دیا ہے، اس افسانچے میں اس کی عکاسی دیکھی جا سکتی ہے۔ افسانچے میں ماجرا کی کمی ہے لیکن بین السطور میں ریحان کوثر صاحب اپنے مافی الضمیر کی ترسیل میں کامیاب ہیں۔

اسید اشہر: ایونٹ کی شروعات ایک بہترین اور عمدہ افسانچے سے ہوئی ہے۔ اس کہانی کے ذریعہ محترم ریحان کوثر صاحب نے کیا گہرا طنز کیا ہے۔ آج کے حالات کے تناظر میں اسے سمجھنا اور اس کی گہرائی میں اترنا مشکل نہیں۔ سچ ہے کہ گاندھی بننا آسان نہیں۔ اسی لیے تو آج گوڈسے کے نظریات کو ہوا دی جا رہی ہے۔ مجھے ایک سبق اس افسانچے سے یہ بھی ملا کہ اچھا آدمی بننا مشکل ہے اور برا آدمی بننا نہایت آسان۔

٭٭٭

Post a Comment

0 Comments